ماسکو؍ کیف (انٹرنیشنل ڈیسک) روس اور یوکرین کے درمیان متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں ایک بار پھر جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ روسی وزارت دفاع نے تصدیق کی کہ روس اور یوکرین کے درمیان 206 جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ روس نے یوکرین کے ایک 103 اور یوکرین نے بھی روس کے 103 جنگی قیدی رہا کیے ہیں۔ رہا ہونے والے افراد یوکرین کے کورسک ریجن میں ہونے والی لڑائی کے دوران قیدی بنائے گئے تھے۔ فریقین میں قیدیوں کی رہائی آٹھویں بار ہوئی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ یوکرین پر اس بات کی پابندی برقرار ہے کہ وہ روس کے اندرونی علاقوں تک مار کرنے کی صلاحیت کے حامل امریکی میزائلوں سے حملے نہ کرے۔ قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اس معاملے پر امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اس میں فی الحال تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔ امریکی وضاحت پر روس کے صدارتی ترجمان نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صدر پیوٹن کی دھمکی کام کرگئی ہے۔ یاد رہے کہ روسی صدرپیوٹن نے کہا تھا کہ ناٹو ممالک نہ صرف یوکرینی فوج کو روس کے اندرونی علاقوں تک مارکرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت کے امکان پر بات کر رہے ہیں بلکہ وہ یوکرین تنازع میں خود بھی شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ یوکرینی فوج کی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ طویل فاصلے تک مارکرنے والے میزائل استعمال کرے۔صرف ناٹو فوج ہی فلائٹ مشنز کو میزائل سسٹم میں شامل کرسکتی ہے۔ اگر یوکرینی فوج کو ایسے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا اور یورپ جنگ میں براہ راست شریک ہوچکے ہیں اور روس بھی درپیش خطرات کی بنیاد پر ہی فیصلے کرے گا۔ادھر ڈھائی سال سے زائد عرصے سے جاری رہنے والی یوکرینی جنگ نے پولینڈ کے عوام کو پریشان کردیا اور وہ یوکرینی پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد سے بے زار ہوگئے۔ اسی تناظر میں یورپی پارلیمان کے رکن اور پولینڈ کے ایوان نمائندگان کے سابق رکن گرزیگورز براؤن نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے دورے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولینڈ کے لوگ آپ کی جنگوں کے لیے نہیں مریں گے۔