8 ستمبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف نے جو جلسہ کیا وہ اس کا پاور شو تھا اور ن لیگ کی حکومت نے اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے جو کچھ کیا وہ اس کا شو آف پاور یعنی اقتدار کی طاقت کا مظاہر ہ تھا۔ تحریک انصاف کے لیے صوابی کے بعد اسلام آباد جیسے اقتدار کے اعصابی مرکز پر ایک جلسہ کرنا یا پاور شو کرنا بہت ضروری تھا اس کے لیے پہلے 22 اگست کی تاریخ مقرر کی گئی اور اس حوالے سے تیاریاں بھی زور و شور سے جاری تھیں لیکن پی ڈی ایم ٹو کی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ یہ جلسہ ہو اس لیے کبھی اجازت دینے کی بات ہوتی کبھی اجازت نامہ منسوخ کرنے کی خبر یا افواہ اُڑائی جاتی کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جلسے کے حوالے سے ایک بے یقینی کی فضا بنائی جائے لیکن تحریک انصاف کے قائدین بہت سختی سے بیانات دے رہے تھے کہ ہم ہر صورت میں 22 اگست کو جلسہ کریں گے۔ جبکہ حکمران طبقہ یہ چاہ رہا تھا کہ کسی طرح یہ جلسہ ملتوی ہوجائے اور اگر ایک مرتبہ یہ ملتوی ہوگیا تو پی ٹی آئی کے کارکنان میں مایوسی کی لہر دوڑ جائے گی اور شاید دوبارہ یہ جلسہ نہ کرسکیں یا اگر کریں بھی تو کسی اور شہر میں جاکر کریں، اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر حکومت بزور قوت اس جلسے پر پابندی لگاتی تو اس سے پوری دنیا میں یہ تاثر جاتا کہ حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور ہوجانے کی صورت میں اگر جلسہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اس میں بھی حکمران جماعت کی سبکی ہوتی۔
اتفاق سے حکومت کو ایک بہانہ مل گیا یا اسے جان بوجھ کر بنایا گیا کہ عدالت عظمیٰ میں مبارک ثانی فیصلے پر جو اپیلیں مختلف علماء اور دینی جماعتوں کی طرف سے دائر کی گئیں تھیں ان کی سماعت ہورہی تھی اور اس موقع پر تحریک لبیک پاکستان اور دیگر دینی جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد میں جمع تھے ختم نبوت کے مسئلے پر یہ ایک انتہائی جذباتی مجمع تھا، حکومت کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر یہ جلسہ ہوا اور اس میں کچھ گڑ بڑ ہوئی تو دوسری طرف پہلے ہی سے ایک جذباتی ہجوم اسلام آباد میں موجود ہے اگر خدا نہ خواستہ یہ دونوں جذباتی ہجوم آپس میں مل گئے تو اسلام آباد جو ملک کا دارالحکومت ہے اس میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تو پوری دنیا میں ملک کا امیج بری طرح متاثر ہوگا۔ پھر اعظم سواتی کے لیے صبح سات بجے جیل کے دروازے کھلوائے گئے اور اعظم سواتی نے اسٹیبلشمنٹ کا پیغام عمران خان کو پہنچایا کہ عدالت عظمیٰ میں جو حساس نوعیت کا کیس چل رہا ہے اور دینی جماعتوں کے لوگ اسلام آباد میں موجود ہیں ایسی صورت میں اس جلسے کو ملتوی کردیا جائے۔ عمران خان شاید یہ بات نہ مانتے لیکن چونکہ اس ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسری تاریخ بھی دے دی کہ آپ 8 ستمبر کو یہ جلسہ کرلیں واضح رہے کہ یہ تاریخ تحریک انصاف نے اپنے کسی اجلاس میں خود طے نہیں کی تھی بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آئی تھی اس لیے اس میں تحریک انصاف کے لیے دو اطمینان کے پہلو تھے ایک تو یہ کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے یعنی مقتدر قوتوں کی طرف سے کسی حوالے سے سہی رجوع تو کیا گیا اور دوسری بات یہ کہ تحریک انصاف کو یہ اطمینان ہوگیا کہ اب یہ جلسہ ہو جائے گا حکومت وقت اس میں کچھ مشکلات تو پیدا کرسکتی ہے لیکن اسے ختم نہیں کرسکتی۔
اب جلسے کے حوالے سے کچھ اہم نکات پر بات ہو جائے پہلی بات تو یہ کہ اب یہ نکتہ اتنا اہم نہیں رہا کہ جلسے میں حاضری کتنی تھی جیسا کہ عطا تارڑ نے یہ طعنہ دیا کہ کہاں گیا وہ عوام کا سیلاب جس کے دعوے کیے جارہے تھے۔ سیلاب نہیں آیا کچھ بارش تو ہوئی یا بوندا باندی سمجھ لیں جس سے حبس کا ماحول ختم ہوتا ہے اس میں جو نکتہ زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ سیکڑوں کنٹینرز لگانے اور راستوں کو محدود کرنا پھر پولیس کی بے جا روک ٹوک، جگہ جگہ شرکاء جلسہ کو روکنا اس کی وجہ سے بہت سے لوگ جلسے میں پہنچ نہیں سکے یا پہنچے تو خوف کی فضاء کی وجہ سے زیادہ دیر جم کر بیٹھ نہیں سکے کہ پتا نہیں کب کیا ہو جائے۔ اس لیے اگر دس ہزار لوگ ہوں، پندرہ ہزار ہوں یا پچاس ہزار ہوں یہ تعداد میٹر نہیں کرتی دیکھنا یہ کہ تصادم کے خوف کے ماحول میں لوگوں کا اپنے گھروں سے نکل کر آجانا ہی کامیابی ہے اسی لیے تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اس دن دو جلسے ہوئے ایک دن کے دو بجے سے لے کر رات تک جس میں پنجاب کے مختلف شہروں سے لوگ آتے گئے اور جاتے گئے اور دوسرا جلسہ رات کو ہوا جس میں گنڈا پور نے خطاب کیا یہ جلوس کے پی سے آیا تھا چونکہ اجازت نامے میں رات سات بجے تک اجازت دی گئی تھی لیکن یہاں دوسرا جلسہ تو سات بجے کے بعد شروع ہوا۔
اس جلسے کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ تھی کہ اس میں عمران خان نہیں تھے یعنی یہ جلسہ مرکزی قیادت کے بغیر ہورہا تھا، اب تک تحریک انصاف کے جتنے جلسے ہوئے اس میں عمران خان اصل مقرر اور شرکاء کے لیے مرکز نگاہ ہوتے تھے۔ اس جلسے میں نظم و ضبط کا فقدان تھا ویسے تو تحریک انصاف کا یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے، لیکن پر سکون اور پرامن ماحول میں جو تیاری کرکے جلسے یا دھرنے ہوتے رہے ہیں ان میں پھر بھی کچھ نظم و ضبط نظر آتا تھا، لیکن 8 ستمبر کا یہ پاور شو ایک ایسے بے یقینی اور ڈسٹرب ماحول میں ہوا کہ جلسے منتظمین کو اسٹیج کی سیٹنگ اور کرسیاں بچھانے کے علاوہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع نہیں مل سکا یہی وجہ ہے اسد قیصر جیسے اہم رہنما اسٹیج تک نہ پہنچ سکے محمود اچکزئی کی چادر کہیں گم ہو گئی اور سنا ہے ان کی جیب بھی کٹ گئی اس بدنظمی کا انہوں نے اپنی تقریر میں بھی شکوہ کیا اور یہ مشورہ دیا کہ تحریک انصاف کو اپنی تنظیم کی طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔
اب آتے ہیں اس اہم مسئلے کی طرف جس کی وجہ سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس جلسے سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہوا ہے یا نقصان ہوا ہے اور وہ ہے رہنمائوں کی تقاریر۔ جلسے میں دو طرح کی تقاریر ہوئیں پہلی تو وہ جو تمام رہنمائوں نے کیں ان میں حکومت پر شدید تنقید بھی ہوئی مطالبات بھی پیش کیے گئے اور دوسری وہ تقریر جو امین علی گنڈا پور نے کی۔ جس پر معروف صحافی اور دانشور مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ گنڈا پور نے تو میلہ لوٹ لیا۔ جو زبان استعمال کی گئی اور جو لہجہ اختیار کیا گیا وہ غیرمعیاری ہی نہیں بلکہ اخلاق سے بھی گرا ہوا تھا ایک تجزیہ نگار کی رائے تھی کہ گنڈا پور نے یہ تقریر عمران خان کو خوش کرنے کے لیے کی ہے۔ ایک دن پہلے عمران خان نے گنڈا پور کو تھپکی بھی دی تھی اور کہا تھا کہ جو لوگ گنڈا پور کی مخالفت کررہے ہیں انہیں پارٹی سے نکال دوں گا اس تبصرے سے گنڈا پور کو اور حوصلہ مل گیا اور وہ خوب گرجے اور برسے۔
گنڈاپور نے صحافیوں، خواتین صحافیوں، ایک صوبے کی خاتون وزیر اعلیٰ کے خلاف جو انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی وہ ہر لحاظ سے غلط ہی نہیں بلکہ گھٹیا انداز بیان ہے اسی طرح انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں چھوڑا۔ صحافیوں کے خلاف جو بات کی گئی اس پر تو تحریک انصاف کی قیادت نے معافی مانگ لی لیکن ایسی بات ہونی ہی نہیں چاہیے تھی اس وقت ملک کے نامور صحافی حضرات عمران خان کی حمایت میں بات کررہے ہیں انہیں ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اصل نکتہ تو یہ ہے کہ گنڈا پور نے جو یہ دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے عمران خان کو دو ہفتے میں رہا نہیں کیا تو وہ عمران خان کو خود اڈیالہ جیل سے رہا کراکے لائیںگے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے لیے میں سب سے آگے آگے رہوں گے اور چاہے مجھے گولی کھانا پڑجائے اور اس کے لیے انہوں نے خدا کی قسم بھی کھائی ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ قسم کا کفارہ کب اور کیسے ادا کریں گے۔