جاپان: قیادت کی دوڑ اور روایتی سیاسی ڈھانچہ

218

ان دنوں جاپان میں انتخابی معرکے کا میدان گرم نظر آرہا ہے۔ اور جاپان کی حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) میں حالیہ قیادت کی دوڑ نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ملک کا آئندہ وزیراعظم کون ہوگا۔ کیونکہ اس بار، نو امیدواروں نے پارٹی کی سربراہی کے لیے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا فیصلہ 27 ستمبر کو ہوگا۔ یہ انتخابات ایک بڑے مالی اسکینڈل کے بعد پارٹی کی جانب سے عوامی اعتماد کی بحالی کی کوشش کا حصہ سمجھے جارہے ہیں۔

جاپان کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت پر مبنی ہے، جس میں وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ جاپان کی پارلیمنٹ، جسے نیشنل ڈائٹ کہا جاتا ہے، دو ایوانوں پر مشتمل ہے، ایوان نمائندگان (Lower House) اور ایوان بالا (Upper House)۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی اکثریت ایل ڈی پی اور اس کے اتحادی کومیتو پارٹی کے پاس ہے، اس لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ ایل ڈی پی کا نیا صدر ہی یقینی طور پر جاپان کا اگلا وزیراعظم بنے گا۔ ایل ڈی پی کی روایتی سیاست میں مختلف دھڑے انتہائی اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں، جو پارٹی کی پالیسیوں اور قیادت کے انتخاب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ تاہم، حالیہ مالی اسکینڈل کے بعد، ان دھڑوں کا اثر کمزور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، اور حالیہ انتخابات میں ان دھڑوں کی براہ راست مداخلت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

جاپان کی حکمران سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے دو مراحل پر مشتمل ووٹنگ کا نظام مقرر ہے۔ اگر کسی بھی امیدوار کو پہلے مرحلے میں کل 734 ووٹوں میں سے واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی یعنی مطلوبہ 367 سے زائد ووٹ تو دو اعلیٰ امیدواروں کے درمیان اسی دن دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔ پہلے مرحلے میں 367 ووٹ ایل ڈی پی کے قانون سازوں کی جانب سے اور 367 ووٹ پارٹی کے عام اراکین کی طرف سے ہوتے ہیں، جس میں ہر رکن کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر دوبارہ ووٹنگ کی نوبت آتی ہے، تو اس بار 367 ووٹ صرف قانون سازوں کی جانب سے ڈالے جائیں گے، جبکہ 47 ووٹ جاپان کے 47 صوبوں (پری فیکچرز) میں تقسیم کیے جائیں گے، یعنی ہر پریفیکچر کا ایک ووٹ۔

توقع کی جارہی ہے کہ اس بار نئے ایل ڈی پی صدر کو متعدد داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان چیلنجز میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب عوامی مشکلات کو کم کرنا، چین کی تزویراتی حکمت عملی اور شمالی کوریا کے میزائل تجربات جیسے سیکورٹی خطرات کا مقابلہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ، قیادت کی دوڑ میں شامل امیدوار پارٹی کی تجدید کا وعدہ بھی کر رہے ہیں، یہ بات خاص طور پر ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے مزید تین سال کے لیے امیدوار نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ قیادت کے انتخابات میں شامل نو امیدواروں میں دو نوجوان اور دو خواتین بھی شامل ہیں، جو جاپان کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔

بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ انتخاب ایل ڈی پی کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پارٹی نے ماضی میں روایتی سیاست کے اصولوں پر عمل کیا ہے، لیکن حالیہ مالی اسکینڈل اور قیادت کی دوڑ میں شامل امیدواروں کے تنوع نے یہ ظاہر کیا ہے کہ جاپان کی سیاست میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جاپان کے عوام اور سیاست دان اس نئے سفر میں کیسے آگے بڑھتے ہیں۔

نئے ایل ڈی پی صدر کو پارٹی کے اندر اصلاحات اور عوامی اعتماد کی بحالی کے علاوہ جاپان کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہونا ہوگا۔ یہ قیادت کی دوڑ نہ صرف جاپان کی داخلی سیاست پر اثر انداز ہوگی بلکہ شمال مشرقی ایشیا کی سطح پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔