جماعت ِ اسلامی کی تحریک ’’حق دو عوام کو‘‘ دھرنا

237

(دوسرا حصہ)
ایک طرف مرکز کی غلط پالیسی کی بدولت چھوٹے صوبوں کے اندر احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ مقامی طرزِ سیاست نے فیڈریشن کے وجود کو خطرات سے دوچار کریا ہے تو دوسری طرف حکمران طبقہ ورلڈ بینک اور امریکا کے زیر ِ اثر پاور پالیسی سے اربوں ڈالر کا منافع لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہے۔ جبکہ اس ساری لوٹ مار کی قیمت غریب محنت کش عوام سے وصول کی جارہی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ریوائز کرکے ڈالر ایکسچینج ریٹ 148 روپے فکس کیا گیا، تاہم اس نظر ثانی شدہ معاہدے پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔
اس بحران در بحران صورتِ حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مقتدر حلقے، سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز آگے بڑھ کر اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کریں۔ آئی پی پیز کے چنگل سے نکلنے اور آئی ایم ایف سے جان چھڑوانے کے لیے اِن مقتدر حلقوں، آئی پی پیز مالکان کو عوام کو لوٹنے کی روِش ترک کرکے انہیں ریلیف دینے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بطور نمونہ چند قابلِ عمل اقدامات حسبِ ذیل تجویز کیے جاتے ہیں:
٭ دْنیا میں کوئی معاہدہ ایسا نہیں ہے جس پر نظرثانی نہ کی جاسکتی ہو یا جس کے اندر موجود خرابیوں کو درست نہ کیا جاسکتا ہوں۔ اس لیے سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے ظالمانہ، غلط اور عوام کے استحصال پر مبنی ہیں۔
٭ اس بنیادی نکتہ پر اتفاق کے بعد تمام آئی پی پیز کا باقاعدہ فرانزک آڈٹ کیا جائے۔ جو آئی پی پیز بے ضابطگیوں میں ملوث قرار پائیں انہیں فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے۔ اِن آئی پی پیز نے گزشتہ 30 سال کے دوران اس ملک کے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر جو لْوٹ مار کی ہے، اس کا تخمینہ لگا کر ان کے مالکان کی دولت کو ضبط کر کے وہ ناجائز لوٹی گئی رقم واپس حاصل کی جائے۔ صرف ان دو اقدامات کے ذریعے سے ہی بجلی کی پیداواری لاگت کئی سو گنا کم ہو جائے گی۔
٭ اسی ضبط شدہ دولت کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر کیا جائے تو 34 فی صد لائن لاسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
٭ پن بجلی دنیا بھر میں توانائی کا سب سے سستا ذریعہ ہے، جوکہ شہریوں کو ٹیکس شامل کر کے بھی 2 سے 5 روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں 60 ہزار میگاواٹ سے زائد سستی پن بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے۔ پن بجلی کے میگا منصوبے بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم عرصہ دراز سے فنڈز کی عدم دستیابی اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر مسلسل التواء اور سْست روی کا شکار چلے آرہے ہیں۔ صرف اِن تین میگا پن بجلی منصوبوں کی تکمیل ہی سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کافی حد تک پوری کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا حکومت مہنگی تھرمل بجلی گھروں کو کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے دینے کے بجائے یہی پیسہ سستی پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل پر خرچ کرے تو آنے والے چند سال ہی میں بجلی بحران پر مکمل قابو پایا جاسکتا ہے اور مہنگی بجلی سے عوام کی جان چھوٹ سکتی ہے۔
بجلی کے بھاری بھرکم بلوں، ہوشربا مہنگائی، ظالمانہ ٹیکسوں اور اشرافیہ کی عیاشیوں و مراعات کے خلاف امیر جماعت ِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن عوام کے دِلوں کی آواز بن کر میدانِ عمل میں کود پڑے اور عوام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک کا آغاز کرتے ہوئے ڈی چوک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ ملک بھر سے قافلے اسلام آباد ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے لگے تو حکومت نے پولیس گردی کے ذریعے اِن قافلوں کو روکنا، اور جماعت کے کارکنان، رہنماؤں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کرنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی حکومت نے اسلام آباد کے تمام داخلی راستے کنٹینرز لگاکر بند کردیے۔ شدید عوامی دباؤ اور ردعمل کے نتیجے میں حکومت نے جماعت ِ اسلامی کو لیاقت باغ راولپنڈی مری روڈ پر دھرنا دینے کی اجازت دے دی۔ یہ دھرنا 14 دن تک بھرپور عوامی شرکت اور قوت کے ساتھ جاری رہا اور حکومت کو تحریری معاہدہ پر مجبور کرنے کے بعد 14 دن بعد کامیابی کے ساتھ اختام پذیر ہوا۔ دھرنے میں حکومت کے سامنے جو بنیادی مطالبات رکھے گئے اْن میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، بجلی پیداوار کی اصل قیمت کے حساب سے بلوں کی وصولی، پٹرولیم مصنوعات پر حکومتی ناروا ٹیکسوں اور لیوی کا خاتمہ، تمام آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے ظالمانہ معاہدوں میں کیپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر کے حساب سے وصولی کی شرائط کا خاتمہ، تنخواہ دار طبقے پرعائد اضافی انکم ٹیکس کا خاتمہ، صنعت، تجارت، زراعت پر ناروا ٹیکسوں کا خاتمہ شامل تھے۔ نیز اشرافیہ کی عیاشیوں اور غیرترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ اگر عوام کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو دھرنے پورے پاکستان میں پھیلا دیے جائیں گے۔
ان مطالبات کے حوالے سے حکومت اور جماعت ِ اسلامی کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے چار ادوار ہوئے۔ مذاکرات کا پانچواں اور آخری دور دھرنا پنڈال راولپنڈی مری روڈ میں 08 اگست 2024ء رات 9:30 بجے ہوا، جس میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور جماعت ِ اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان شریک ہوئے۔ امیر جماعت ِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن صاحب مذاکرات کے اس آخری دور میں خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
حکومتی مذاکرات ٹیم کی طرف سے وفاقی وزیر ِ داخلہ سید محسن نقوی، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطاء اللہ تارڑ جبکہ جماعت ِ اسلامی کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان نائب امیر جماعت ِ اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ (سربراہ)، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، نصر اللہ رندھاوا، فراست شاہ مذاکرات کے اس حتمی راؤنڈ میں شریک ہوئے۔ 08 اگست 2024ء کو ہونے والے مذاکرات کے اس آخری راؤنڈ میں گزشتہ چار راؤنڈز کے مذاکرات میں متفقہ طور پر طے پانے والے نکات کے تسلسل میں طے پایا کہ حکومت درج ذیل اقدامات کرے گی:
1۔ تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کو ہر ممکن طریقے سے کم کیا جائے گا، اِس کے لیے ریونیو کو بڑھایا جائے گا، جس سے fiscal base پیدا کی جائے گی اور تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کی شرح گزشتہ مالی سال کے مطابق آجائے گی۔ اِس کے لیے حکومت اور جماعت ِ اسلامی کی مشترکہ کمیٹی عملدرآمد کروائے گی۔
2۔ حکومت نے جماعت ِ اسلامی کے اِس مطالبہ کو تسلیم کیا ہے کہ بجلی کے بل ہر صورت کم ہونے چاہئیں۔ فی یونٹ لاگت اور اْن پر لگنے والے ٹیکس صارفین پر بڑا بوجھ ہیں۔ حکومت نے وضاحت کی کہ یہ مجبوری ہے، تاہم یقینی طور پر ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جس سے آئندہ ڈیڑھ ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کردی جائے گی۔
3۔ حکومت نے دھرنے کے اِس مطالبے سے اتفاق کیا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ میکنزم طے کرکے جاگیرداروں اور بڑے لینڈ ہولڈرز پر انکم ٹیکس لگانے کا مؤثر نظام وضع کیا جائے گا۔
4۔ تاجر دوست اسکیم کے نفاذ سے پیدا ہونے والے غیرمنصفانہ نظام اور خدشات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تاجروں پر ٹیکس کا نظام آسان اور سہل الحصول بنایا جائے گا۔
5۔ تاجروں، ایکسپورٹرز کے مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی NOTIFY کی جائے گی جو حکومت، ایکسپورٹرز اور تاجروں پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرے گی۔
6۔ وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت آئی پی پیز کے معاملہ میں سنجیدہ ہے، جماعت ِ اسلامی کا مطالبہ قومی مطالبہ ہے، اِسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔ حکومت نے اِسی لیے بااختیار ٹاسک فورس قائم کردی ہے جو ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی۔
7۔ ماہِ اگست 2024ء بجلی کے بل کی ادائیگی 15 دن کے لیے مؤخر کی جارہی ہے تاکہ صارفین کو سہولت حاصل ہو۔
طے پایا کہ ٹاسک فورس درج ذیل اقدامات بھی کرے گی:
(1) آئی پی پیز کی جانچ پڑتال کا مقصد عوام کو ریلیف دینا اور فی یونٹ لاگت کم کرنا ہے، تاکہ کیپیسٹی بلز ادائیگی کی بچت براہِ راست بجلی فی یونٹ کی کمی سے منسلک ہو۔
(2) ٹاسک فورس واپڈا چیئرمین، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، ایف پی سی سی آئی کے نمائندے بھی Opt کرے گی۔
مذاکراتی کمیٹیوں نے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ٹاسک فورس کے درجِ ذیل نکات (TORs) سے اتفاق کیا گیا:
ٹاسک فورس اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی میں:
(i) پبلک/پرائیویٹ سیکٹر سے کسی بھی ماہر کا انتخاب کرے گی۔
(ii) مقامی اور/یا بین الاقوامی مشاورتی فرموں، بینکرز، قانونی مشیروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرموں، یا کسی دوسری تنظیم یا فرد سے جیسا کہ ضروری سمجھا جائے، ریکارڈ اور معلومات اور/یا مدد حاصل کرے گی۔
ٹاسک فورس کے حوالہ کی شرائط (TORs) حسب ذیل ہیں۔
(i) پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل طور پر پائیدار بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔
(ii) اس کے نفاذ کے ساتھ ایک موثر اور لیکویڈیٹی پر مبنی پاور مارکیٹ ڈیزائن کرنا۔
(iii) ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے صنعتوں /SEZs کی طرف سے اضافی صلاحیت کے استعمال کی سفارش کرنا۔
(iv) صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لینا اور تجویز کرنا، بشمول لیکن ان تک محدود نہیں بعض پلانٹس کو بند کرنا اور مناسب سمجھے جانے والے دیگر ضروری اقدامات کرنا۔
(v) ملک میں مختلف آئی پی پیز کے سیٹ اپ لاگت سے متعلق معاملات کا جائزہ لینا اور ان کو درست کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرنے کے لیے غلط طریقوں، طریقہ کار کی کمزوریوں اور ریگولیٹری خلا کی نشاندہی کرنا؛
(vi) متعلقہ سرکاری ایجنسیوں؍ اداروں کے ساتھ دستخط کیے گئے مختلف معاہدوں کے پیرامیٹرز؍ شرائط و ضوابط کے ساتھ آئی پی پیز کی تعمیل کا جائزہ لینا؛ اور
(vii) توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیبٹ اسٹاک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔
(viii) ٹاسک فورس کا کردار حقائق کی تلاش تک محدود نہیں ہوگا، اور ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بھی ذمے دار ہوگی۔
(ix) ٹاسک فورس کو وفاقی حکومت کی جانب سے مطلوبہ بجٹ مختص کرنے سمیت مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
(x) اپنے قیام کے ایک ماہ کے اندر، ٹاسک فورس اپنی سفارشات اور عمل درآمد کے منصوبے کے ساتھ وزیر اعظم کو غور کے لیے پیش کرے گی۔
جماعت ِ اسلامی اور حکومتی وزراء کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے پانچ ادوار میں درج ذیل مطالبات پر تفصیلی بحث ہوئی لیکن اِن پر اتفاق نہ ہوسکا۔ حکومتی ٹیم نے اِس کی وضاحتیں کیں کہ حکومت اِن مطالبات پر پہلے ہی کام کررہی ہے اس لیے انہیں آئندہ مراحل میں دیکھا جائے گا:۔
٭ سْود کی لعنت کو مکمل ختم کرنا تو لازم ہے ہی لیکن حکومت ابتدائی طور پر بجلی کے بِلوں میں فوری ریلیف دینے کے لیے شرح سْود میں 5 سے 10 فی صد بتدریج کمی لائے گی۔ اِس اقدام سے حکومت کوعوام کو ریلیف دینے کے لیے ہزاروں ارب روپے اضافی حاصل ہوجائیں گے۔ اِسی طرح بینکوں؍ مالیاتی اداروں کی ریزرو شرح کو 25 فی صد تک کردیا جائے گا۔
٭ K الیکٹرک کا بھی فرانزک آڈٹ کیا جائے گا۔ اس کا میکنزم بنایا جائیگا اور اس کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ KE کی monopoly کو ختم کیا جائے گا۔ KE کی generation براہِ راست کی جائے گی اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے competition کو پیدا کرتے ہوئے متعدد کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا۔
٭ سرکاری سطح پر سیاسی، حکومتی، انتظامی اہل کاروں کے لیے گاڑیوں کا استعمال 1300 سی سی تک محدود کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔ نیز سرکاری اہل کاروں کے لیے مفت مراعات خصوصاً ذاتی استعمال کے لیے مفت پٹرول کی مراعات ختم کی جائے گی۔
٭ حکومت آٹا، چینی، بچوں کا دودھ اور اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسوں کا بوجھ ختم کرکے ان اشیائے ضروریہ میں عوام کو ریلیف دے (حکومتی ٹیم نے وضاحت کی کہ اِس پر غور اور عمل کیا جارہا ہے)۔
مطالبات کے جو نکات طے پا گئے ہیں حکومت اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے کہ اْن پر اْس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرے گی۔ حکومت اور جماعت ِ اسلامی کی کمیٹی اِس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ملاقات کرکے عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔
نوٹ: مذاکرات کے ادوار میں حکومتی ٹیم کی جانب سے وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری، وفاقی وزیر امورِ کشمیر امیر مقام، چیف وہپ طارق فضل چودھری اور ٹیکنیکل ٹیم میں توانائی، پلاننگ، ایف بی آر کے اعلیٰ سِول افسران بھی شریک ہوتے رہے۔
عوامی جدوجہد ہی وہ کسوٹی ہے جو نہ صرف حکمرانوں کو راہِ راست پر آنے پر مجبور کر سکتی ہے، بلکہ اس نظام کو تبدیل کرنے کا بھی موجب بن سکتی ہے جس کی بنیاد حکمرانوں کی عیاشی اور لْوٹ مار کے اْصول پر رکھی گئی ہے۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں، ناروا ٹیکس اور ناقابل ِ برداشت مہنگائی سے عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے اور اْن میں مزید برداشت کی سکت نہیں رہی۔ حکومت بھی عوام کی نبض کو سمجھتے ہوئے نمائشی اقدامات کرنے پر اْتر آئی ہے۔ لیکن اب عوام اِن نمائشی اور عارضی اقدامات کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ عوام مہنگائی، بھاری بھرکم بلوں، ناروا ٹیکس، مہنگائی کے خلاف حقیقی ریلیف چاہتے ہیں۔ اگر حکومت نے حسب ِ معاہدہ طے شدہ مدت کے دوران عوام کو ریلیف نہیں دیا تو پھر ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک ملک گیر عوامی انقلاب میں تبدیل ہوکر ظالم حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمہ کا سبب بنے گی۔