اے ابن آدم پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت سے کراچی کے بلدیاتی نظام پر نااہل ترین لوگوں کے قبضے نے شہر کا بچا کھچا نظام بھی تباہ کردیا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شہر پر مسلط لوگ اس شہر کو سنوارنے نہیں اُجاڑنے آئے ہیں اور اب تو شہر کے ہر ادارے میں سفارش اور نااہل لوگوں کو زبردست اور غیر قانونی طور پر مسلط کردیاگیا ہے، اب تو یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جن لوگوں کا تقرر بلدیاتی اداروں میں ان کی اہلیت کے بجائے پارٹی وابستگی یا خاص لوگوں کی سفارش پر کیا گیا ہے وہ نہ صرف نااہل بلکہ شہر کی تباہی کا ایجنڈا لے کر آئے ہیں۔ کراچی میں کہیں بھی نکل جائیں جہاں جہاں یہ لوگ مسلط ہیں وہاں صرف تباہی نظر آتی ہے۔ کے ایم سی کے زیر انتظام نالے، سڑکیں، سیوریج کا نظام کچھ سلامت نہیں ہے، اس پر طرہ یہ کہ جو لوگ اختیارات اور مالی وسائل کے بغیر بھی خدمت کے جذبے سے کام کررہے تھے پیپلز پارٹی کے سفارشی افسران صوبائی حکومت کی شہ پر اور اس کی سرپرستی میں منتخب نمائندوں کے کام بھی روکنے لگے ہیں اور خاص طور پر اورنگی ٹائون میں تو منتخب نمائندوں کے کام سے بھی نہ صرف انکار کردیا بلکہ لوگوں سے سکشن مشین اور گاڑی بھیجنے کے بھی پیسے مانگے جارہے ہیں۔ صورت حال اس قدر خراب ہے کہ کسی طوفانی بارش یا قدرتی آفت کے ساتھ ہی شہر کا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔ ایسے میں کسی اختیار کے بغیر بھی کراچی سمیت پورے ملک کی خدمت کرنے والی جماعت اسلامی کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ چنانچہ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے اعلان کیا ہے کہ قابض میئر کی نااہلی و ناقص کارکردگی، شہر میں سڑکوں کی خستہ حالی و انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ٹائون اور یوسی کی سطح تک اختیارات و وسائل کی عدم منتقلی، پانی کے بحران اور صفائی ستھرائی کے ناقص نظام کے خلاف جماعت اسلامی کے منتخب بلدیاتی نمائندوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
امیر کراچی نے شہر کی بدترین صورتحال کی ذمے داری براہ راست سندھ حکومت اور میئر کراچی پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی دشمنی ترک کرے۔ پی ایف سی ایوارڈ فوری طور پر جاری کرے۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور واٹر کارپوریشن کو ٹائون کے ماتحت کیا جائے، ٹائون اور یوسی چیئرمینوں کو مالی و انتظامی اختیارات منتقل کیے جائیں، مخصوص نشستوں پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے حوالے سے چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔ کراچی کے امیر نے کہا کہ سندھ حکومت کی نااہلی و ناقص کارکردگی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ریڈ لائن منصوبہ عوام کی سہولت کے بجائے عوام کی جان کے لیے خطرہ اور ریڈ لائن بن چکا ہے۔ اس کی حتمی مدت کا کوئی تعین نہیں کہ یہ پروجیکٹ کب مکمل ہوگا اس کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ تباہ ہے، پوری سڑک پر صرف گڑھے اور منصوبے کی مشینری پڑی ہے، سندھ حکومت کو وفاق سے 16 برس قبل 178 ارب ملتے تھے اور اب 1900 ارب روپے ملتے ہیں لیکن کراچی میں تو 100 ارب لگتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے۔ باقی سندھ میں بھی کوئی رقم نہیں لگ رہی ہے۔ کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اسے اس کی اپنی خطیر رقم میں سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ بجٹ کے نام پر مختص اربوں روپے کہاں خرچ کیے جاتے ہیں، شہر تو ویسے ہی تباہی کی فریاد سنا رہا ہے، شہر میں کئی سڑکیں بار بار بننے کے باوجود تباہ حال ہیں۔ جہانگیر روڈ کئی بار تعمیر ہونے کے باوجود آج بھی تباہ ہے، فلائی اوورز میں بھی سوراخ ہوگئے ہیں، انڈر پاسز شہریوں کے لیے موت کے کنویں بن گئے ہیں، پروجیکٹ اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں ٹائون چیئرمینوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، من پسند ٹائون اور یوسز کو نوازا جارہا ہے اور وزیر بلدیات تو سمجھتے ہیں کہ چنیسر ٹائون ہی پورا کراچی ہے اور اس میں بھی چند یوسیز کیونکہ اس ٹائون کے چیئرمین ان کے بھائی ہیں۔ سندھ حکومت، کے ایم سی اور کے الیکٹرک کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ بارے میں بھی انہوں نے آواز اٹھائی ہے اور بتایا کہ اس کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں سے بجلی بلوں میں میونسپل چارجز کی وصولی شروع کردی گئی ہے اور خفیہ طور پر واٹر اینڈ سیوریج کے بل میں 23 فی صد اضافہ کردیا ہے۔ عوام کو نلکوں میں پانی نہیں ملتا اور پانی ٹینکروں سے خریدنا پڑتا ہے۔ K-4 کا منصوبہ 19 سال سے تعطل کا شکار ہے، کراچی کے عوام سے اس زیادتی کے ذمے دار پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں وفاق اور صوبے میں اقتدار کی شراکت دار رہی ہیں لیکن K-4 منصوبہ مکمل نہیں کیا۔
یہ وہ سارے الزامات ہیں جو جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے لگائے، اس میں کوئی شک نہیں ایک ایک بات سچ ہے، سندھ کا بجٹ تو سندھ کے وڈیرے کھا رہے ہیں، سائیں سرکار سے لے کر سرکار تک حصہ جارہا ہے۔ K-4 منصوبے کے پیچھے بھی کرپشن کی بہت بڑی کہانی ہے، 20 سال سے نیو کراچی اللہ والی سے لے کر شفیق موڑ کا برا حال ہے، گٹر پر بے شمار دکانیں متحدہ کے دور حکومت میں قائم کروائی گئی بلکہ کارکنوں کو نوازا گیا جن کی وجہ سے سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ان ناجائز دکانوں کو ختم کرنے کے احکامات موجود ہیں مگر آج تک کسی نے ان پر عمل نہیں کیا۔ ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی، نارتھ کراچی، سرجانی، بلدیہ، شیر شاہ کی سڑکوں کا حال بدتر ہوچکا ہے۔ KE نے عوام کی زندگی جہنم بنادی ہے، میرا نیوکراچی 5F میں چھوٹا سا کلینک ہے جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ عروج پر ہے، آدھا گھنٹے میں بجلی استعمال کرتا ہوں، 5 یونٹ کا جو بل اس ماہ مجھے موصول ہوا ہے وہ 2200 روپے ہے، یعنی میرا ایک یونٹ 450 روپے کا پڑا ہے۔ یہ ظلم کب بند ہوگا بس اب تو عوام کی نظریں جماعت اسلامی کے اس دھرنے پر لگی ہیں جو موخر ہوا تھا۔
مجھے پتا ہے حکومت کو آئی پی پیز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنی، نیپرا نے تو حد کرکے رکھ دی ہے جب KE کا دل چاہتا ہے ایک یونٹ پر 5 روپے سے 7 روپے تک بڑھا دیتا ہے اور بل کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ یہ بل نیپرا کی ہدایت کے مطابق جاری کیا جارہا ہے۔ نوٹیفکیشن کا نمبر SRO-811(1)2024 لکھا ہے، اس SRO کو عدالت میں جماعت اسلامی چیلنج کرے یہ مذاق کب تک چلے گا، آخری امید جماعت اسلامی ہے مگر عوام بھی فیصلہ کریں کہ سوائے جماعت اسلامی کے اب کسی اور جماعت کا ساتھ نہیں دینا سب کے سب چور مل کر ملک کو لوٹ کر کھارہے ہیں عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے۔ شہباز شریف صاحب آپ اسٹیبلشمنٹ کی بدولت چور دروازے سے اقتدار میں آئے ہیں اب اگر آپ کو حکومت مل ہی گئی ہے تو عوام کو ریلیف دیں پنجاب پاکستان نہیں باقی صوبے بھی پاکستان کا حصہ ہیں، انقلاب کی موجیں اٹھنا شروع ہوچکی ہیں، ابھی بھی وقت ہے جماعت اسلامی نے جو مطالبات حکومت کو دھرنے میں دیے ہیں ان پر فوری عمل ہی اس عوامی انقلاب کی موجوں کو روک سکتا ہے۔ آپ آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق توڑنے کا اعلان کریں۔ عوام کو آپ نے بھوک، بے روزگاری، فاقوں، خودکشیوں کے علاوہ دیا کیا ہے۔ یہ اختیارات کی بندربانٹ کو ختم کریں اور عوامی مسائل پر فوری توجہ دیں، نہیں تو دھرنے اور ہڑتالیں آپ کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیں گی۔