غزہ کی بدترین صورت حال

230

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کو تاریخ کی بدترین صورت حال قرار دیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی ہے کہ اقوام متحدہ مستقبل میں غزہ کا انتظام سنبھال لے گی یا وہاں امن مشن تعینات کرے گی۔ غزہ کی صورت حال کے بارے میں اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ کے مسلمان اس وقت جن مصائب کا شکار ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قضیہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے حوالے سے فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی اور قابل عمل حل نہیں ہے۔ فلسطین میں دو ریاستی حل ہی واحد اور قابل عمل حل ہے۔ فلسطین باالخصوص غزہ کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تشویش پہلی بار سامنے نہیں آئی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی موجودہ لہر کے بارے میں وہ مسلسل تشویش کا اظہار کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ جیسے بالادست عالمی ادارے کے سربراہ کے احساس بے بسی نے دنیا کے سامنے بہت سے حقائق بے نقاب کردیے ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ کے تعصب کے باوجود پہلی بار دنیا کو یہ معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے اور وہ شہری آبادیوں پر مسلسل بمباری کررہا ہے جس کا ہدف سب سے زیادہ بچے، خواتین اور بوڑھے افراد ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 53 بچوں کی روزانہ کی بنیاد پر ہلاکت ہورہی ہے، اس جنگ میں اقوام متحدہ کے سائے تلے امدادی اداروں کے کارکنوں تک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر، نرسیں اور طبی خدمات انجام دینے والے کارکن اسرائیل کی فوجی بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کی حکومت، اس کے وزیراعظم اور وزیر جنگ کو نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا لیکن اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے کسی بھی ادارے کو اجازت نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ 1948ء میں عالم عرب میں نسل پرست صہیونی ریاست کی تشکیل عالمی سامراجی قوتوں برطانیہ، فرانس اور امریکا کی عالمی سیاسی مصلحتوں کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے طویل عرصے سے منصوبہ بنایا جارہا تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین، برطانیہ کا تسلط قائم ہوگیا تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ کو خط لکھ کر مطلع کیا کہ برطانیہ نے فلسطین میں اسرائیل کے نام سے یہودی ملک قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس مقصد کے لیے روس سمیت پورے یورپ سے یہودیوں کو لا کر بسایا گیا، فلسطین کے حقیقی باشندوں کا قتل عام کیا گیا۔ عالمی سیاست میں اس قبضے کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے یہ مسئلہ 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہوا ہے۔ 7 اکتوبر سے قبل یہ تاثر تھا کہ فلسطینیوں کی مزاحمت کچل دی گئی ہے۔ صرف غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی میں حماس کے مجاہدین اور الجہاد رہ گئے ہیں اور انہیں بھی دہشت گرد قرار دے کر ختم کردیا جائے گا۔ 7 اکتوبر سے پہلے مسلمان مایوسی کے عالم میں یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر جیسے عرب ممالک اور پاکستان بھی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرلیں گے۔ لیکن 7 اکتوبر کے بعد سے منظرنامہ تبدیل ہوگیا غزہ کے مسلمانوں کی استقامت نے فلسطینیوں کی مظلومیت کو دنیا کے سامنے عیاں کیا۔ یہاں تک کہ پہلی بار اسرائیل کی صہیونی حکومت کے انسانیت کے خلاف جرائم سے دنیا آگاہ ہوئی اور امریکا اور یورپ میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں یہودی بھی شریک ہوئے اور انہوں نے اپنی اپنی حکومتوں سے یہ کہتے ہوئے اسرائیل کی سرپرستی اور پشت پناہی ختم کرنے کا مطالبہ کیا کہ ہمارے نام پر فلسطینی بچوں، خواتین اور نہتے شہریوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ اسرائیل کا وزیراعظم اور اس کی فوج کا سربراہ اس تکبر میں مبتلا تھے کہ ہم اپنی فوجی طاقت سے حماس کے باقی ماندہ مجاہدین کو ختم کردیں گے۔ اس کے بعد جنگ بھی بند ہوجائے گی، ہمارا قبضہ اور تسلط باقی ماندہ فلسطین پر بھی قائم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ دنیا غزہ میں ہونے والے قتل عام اور نسل کشی کو دیکھ کر مسلسل جنگ بندی کا مطالبہ کررہی ہے لیکن اسرائیل کی حکومت پر کسی کا کوئی زور نہیں ہے۔ لیکن اب خود اسرائیل کے یہودیوں میں بھی ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ اسرائیل خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود چند سو یرغمالیوں کو رہا نہیں کراسکا ہے۔ جبکہ جنگ بندی پر بیرونی اور اندرونی دبائو بڑھتا جارہا ہے لیکن اصل ذمے داری عالمی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکت تاریخ کی بدترین تباہی ہے لیکن امریکا اور یورپی ممالک کو نظر نہیں آرہی۔ وہ بھی عملی اقدام کے بجائے صرف مطالبے پر قناعت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی نظر میں صرف دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ دو ریاستی حل فلسطین کی قیادت اور مسلم ممالک کو قائل کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے پیش کیا گیا ہے، لیکن اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو میں کیے جانے والے معاہدوں کی پابندی بھی نہیں کی اس وقت کی فلسطینی قیادت یاسر عرفات کو زہر دے کر شہید کردیا جو یروشلم یعنی القدس اور مسجد اقصیٰ کے فلسطینی دارالحکومت ہونے پر تیار نہیں ہوئے۔ اس لیے قضیہ ٔ فلسطین کے اصل ذمے دار امریکا، برطانیہ اور اسرائیل ہیں۔