سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فارم 45 کی ہو یا فارم 47 کی اب یہی حکومت ہے اسی سے کام لینا ہے قوم کے مسائل یہیں بحث سے حل ہوں گے، اگر کل ریاست کو بھی کوئی ترمیم کرانا ہوگی یہ ایوان اور لوگ ہوں گے تو کچھ ہوگا، سیاسی قائدین اور پارلیمانی جماعتوں کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں کے پی اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی معاملات سیاستدانوں کے حوالے کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتماد ختم ہورہا ہے صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کے بجائے ان کے حقوق تسلیم کریں۔ اب سے کچھ عرصے قبل تک مولانا اس انتخاب کو فراڈ اور اس اسمبلی کو جعلی کہتے تھے اس کے علاوہ وہ ملک میں دوبارہ انتخاب کرانے کا بڑی شدت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ اپنی شدید مخالف جماعت تحریک انصاف سے بھی محبت کی پینگیں بڑھاتے ہوئے ان سے بھی کئی خیر سگالی ملاقاتیں کیں اب مولانا نے پھر اپنے اس موقف سے انحراف کیا ہے کہ یہ جعلی اسمبلی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں یہ فارم 45 کی ہو یا 47 اب ہمیں اسی اسمبلی میں کام کرنا ہے۔ اب سے کچھ ماہ قبل 24 مئی کو ایک کالم مولانا فضل الرحمن کیا چاہتے ہیں عنوان سے لکھا تھا جس کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں جس ہمیں مولانا کی سیاسی چالوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
’’آج کل مولانا موجودہ اقتداری سیٹ اپ سے شدید نالاں نظر آرہے ہیں۔ ایک زمانے سے ان کا تحریک انصاف سے سخت سیاسی اختلاف چلا آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کے پی کے جو مولانا سیاست کا مرکز و محور تھا وہاں عمران خان کی تحریک انصاف نے جے یو آئی کو شدید قسم کا ڈینٹ لگایا اور 2024 کے الیکشن میں تو جے یو آئی کا کے پی کے سے صفایا ہوگیا یہی وجہ ہے کہ مولانا شروع سے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے رہے ہیں اور تحریک انصاف والے مولانا ڈیزل کے نام سے مولانا کو یاد کرتے تھے لیکن اب ان دونوں جماعتوں کے درمیان بہت حد تک برف پگھل رہی ہے تحریک انصاف کے رہنمائوں نے دو بار مولانا سے ان کے گھر پر ملاقات کی ہے اب دوستی کا ماحول بن رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا جن کو اپنا سمجھتے تھے انہوں نے ہی دھوکا دیا اب مولانا کو عمران خان سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ سے شکایات پیدا ہو گئیں ہیں اس لیے نئے دشمن کے دشمن کو دوست بنانا ہی پڑتا ہے، پہلے مولانا اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ اس لیے دے رہے تھے کہ اس کا جھگڑا عمران خان سے شروع ہوگیا تھا اس لیے مولانا چاہتے تھے کہ کے پی کے میں انہیں جو سیاسی نقصان پہنچا ہے اس کا الیکشن میں کچھ ازالہ ہو جائے لیکن نہیں ہو سکا حالانکہ مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں ان کی بھی جان توڑ کوششیں شامل تھیں، چلیے یہ نہیں ہوسکا تو کوئی بات نہیں، جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا کہ صدر پاکستان کا منصب ہی مل جاتا۔ انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی جیسے لوگ جن کی کوئی سیاسی پارٹی ہے نہ کوئی سیاسی بیک گرائونڈ ہے وہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں مولانا کے پاس تو مضبوط سیاسی جماعت اور اسٹریٹ پاور بھی ہے۔ جس طرح نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور بلاول زرداری مقتدرہ کا ساتھ دے رہے تھے اسی طرح مولانا بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ شہباز شریف وزیر اعظم، آصف زرداری صدر بن گئے اور مولانا کو کچھ بھی ملا پھر غصہ تو بنتا ہے‘‘۔
’’مولانا فضل الرحمن ہمارے ملک کے وہ سیاستدان ہیں جن کے بارے میں ان کے ہم عصر سیاستدان کہتے ہیں کہ مولانا انتہائی زیرک، ذہین اور سیاسی شطرنج پر گہری نظر رکھنے والے سیاستدان ہیںاور انہوں نے ہمیشہ اقتدار کی سیاست کی ہے۔ لیکن جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کی ہے، انہوں نے قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر اقتدار کے ایوانوں میں اسلام کے حق میں پوری قوت سے آواز بلند کی ہے، اور ان اداروں میں اسلامی قوانین کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے نظر آئے۔ مولانا نے مزاحمتی سیاست کم اور مفاہمتی سیاست زیادہ کی ہے۔ مدرسوں کے طالب علموں کی شکل میں مولانا کے پاس مضبوط اسٹریٹ پاور موجود ہے اور جس کا مظاہرہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ مولانا اپنے احتجاج کو بھی ایک سطح تک لے جاکر خود ہی واپسی کا کوئی راستہ تلاش کرلیتے‘‘۔
کچھ عرصے پہلے تک مولانا کا جو موقف تھا اس میں اب جو تبدیلی آئی ہے اس کی وجہ وہ ملاقاتیں ہیں جو ان سے صدر اور وزیراعظم نے کی ہیں۔ یہی وہ دو اہم بااختیار لوگ ہیں جو مولانا کو ’’مطمئن‘‘ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے جے یو آئی کی تحریک انصاف سے جو ملاقاتیں ہورہی تھیں اس میں باخبر صحافیوں کے تجزیوں سے یہ بات نکل کر آئی تھی کہ آئندہ ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں مولانا کی طرف سے پی ٹی آئی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سینیٹ کی دو نشستوں پر انہیں کامیابی دلائی جائے در اصل مولانا اپنے ایک قریبی عزیز کو سینیٹر بنوانا چاہتے ہیں اسی لیے انہوں نے دو کی بات کی ہے تاکہ تحریک انصاف ایک پر تو راضی ہو جائے گی۔ اس وقت تحریک انصاف جن پیچیدہ مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس تناظر میں وہ مولانا کی اس خواہش کو بالکل ٹال نہیں سکتی اس پر کچھ سوچ بچار ہو سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف جے یو آئی کی طرف سے تردید آئی ہے کہ پی ٹی آئی سے ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا ہے نہ ہی اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہے، ہوسکتا ہے پس پردہ کچھ گفت و شنید چل رہی ہو۔
اس وقت مولانا سے صدر زرداری اور شہباز شریف نے جو ملاقاتیں کی ہیں، اخبارات میں اس کی جو وجوہات آرہی ہیں وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت ایک قانون بنانا چاہتی ہے اور ایک آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے مولانا اگر حکومت کے ساتھ اپنے تعاون کا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں تو موجودہ حکومت کے نمبر گیم پورے ہو سکتے ہیں اور آسانی سے قانون سازی اور آئینی ترمیم ہوسکتی ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے اس میں کئی اگر مگر شامل ہیں قانون سازی تو ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے ہے کہا تو یہ جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں مقدمات کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہوچکی ہے اس لیے یہ قانون سازی بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے آٹھ ججوںکے فیصلے پر ریویو پٹیشن داخل کی ہے ویسے یہ قانون سازی تو حکومت مولانا کے بغیر بھی کرسکتی ہے لیکن اصل مسئلہ اس آئینی ترمیم کا ہے جس میں حکومت ججوں کی مدت ملازمت بڑھانا چاہتی ہے تاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی تھوڑی مدت بڑھ جائے اور حکومت کے لیے آسانیاں ہو جائیں۔ اگلے ہفتے مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہونے والا ہے دیکھیے اس میں کیا ہوتا ہے اب اس کے بدلے مولانا کو کیا ملے گا یہ آئندہ پھر کبھی سہی۔