اے ابن آدم موجودہ حکومت نے اب تک ایک کام اچھا کیا کہ یوٹیلٹی اسٹور کو ختم کر دیا اس ادارے میں بے پناہ کرپشن تھی، کرپشن تو خیر سے ہمارے ہر ادارے میں پھل پھول رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف اور اس میں تاخیر ہے۔ رشوت لینے والا رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ پی ڈبلو ڈی میں بھی بے پناہ کرپشن تھی ملازمین یوٹیلٹی اسٹور کے ہوں یا پی ڈبلو ڈی کے گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے کے عادی ہیں کچھ تو مہینے میں ایک بار صرف تنخواہ لینے آتے پوری حاضری لگانے والے بھی ان سے رشوت لیتے اتنی کرپشن کے باوجود میرا ملک چل رہا ہے تو یہ اللہ کا ہی کرم ہے۔ دین اسلام کے اصولوں پر چلنے کے بجائے ہم شیطان کے اصولوں پر چل رہے ہیں چین اور جاپان میں کرپشن کی سزا موت ہے مگر ہمارے پارلیمانی ارکان ایسے قانون نہیں بناتے کیونکہ زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ کرپشن زدہ ہیں۔ کاش حکمران، ادارے، عوام تھوڑی دیر کے لیے اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں سوچیں کاش سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر عمل کیا جاتا واحد جماعت اسلامی ہے۔ جس جماعت میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں ان کا ایک چھوٹا سا کارکن بھی کرپشن سے نفرت کرتا ہے ابھی جماعت اسلامی نے ممبر سازی کا آغاز کیا تو سب سے پہلے میں نے ممبر شپ حاصل کی جب کہ میں برسوں سے اپنے کالموں کے ذریعے جماعت اسلامی کے حقیقی کارناموں کو تحریر کر رہا ہوں ان کے اچھے کاموں کو عوام تک پہنچا رہا ہوں میں تو کئی سال سے ماہانہ چندہ، زکوۃ، فطرہ بھی الخدمت کو دے رہا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کے ملک کی اصل قیادت کی حقدار جماعت اسلامی ہے جس کو اقتدار میں آنے نہیں دیا جاتا لیکن وقت ضرور آئے گا جب ملک کا اقتدار جماعت اسلامی کے پاس ہو گا اس وقت یہ ہی عوام کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیتے تو اتنے برے دن نہ دیکھنا پڑتے۔
آج ملک میں واحد ایک جماعت ہے جو آئی پی پیز اور حکمرانوں کو بے نقاب کر رہی ابھی تو جماعت نے دھرنے کو موخر کیا ہے بس تھوڑا سا انتظار کر لیں اب جو دھرنا ہونے جارہا ہے بھرپور طاقت سے ہو گا اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا یا تو حکومت کو مطالبات پر عمل کرنا ہو گا یا پھر حکومت کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ یہ ابن آدم دیکھ رہا ہے ہماری حکومت کو آئی ایم ایف قرضے دینے کو تیار نہیں تھی اگر آرمی چیف مذاکرات نہیں کرتے تو ملک کب کا ڈیفالٹ ہو چکا ہوتا میں تو بار بار آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب سے اپیل کر رہا ہوں کے وہ عوام کو ڈاکو آئی پی پیز سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آج اخبار سے ایک خبرنظر سے گزری کے نجی آئی پی پیز نے اعلیٰ عسکری قیادت کو پاور سیکٹر کی پریشانیوں سے آگاہ کر دیا عسکری قیادت نے عوام کو ریلیف کی فراہمی صنعتی شعبے کو معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے تجاویز طلب کی۔ آئی پی پیز نے کہا کے اصل مسئلہ سرکاری پاور پلانٹس کا ہے جو 840 ارب روپے سالانہ حاصل کر رہے ہیں اور سی پیک پاور پلانٹس کو 650 ارب روپے کی صلاحیت کی ادائیگی ڈالر کی قیمت 278 روپے لیکن 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں میں قائم آئی پی پیز کو ڈالر کی قیمت صرف 130 روپے مل رہے ہیں جو 2021ء سے 148 روپے تک محدود ہیں یہ رونا تو چند آئی پی پیز نے عسکری قیادت کے سامنے کیا جب کہ دوسری طرف کی خبر کو بھی عسکری قیادت کو دیکھنا ہو گا۔
26 آئی پی پیز کو 10 سال میں 1200 ارب روپے سے زائد ادا کیا جا چکا ہے۔ بعض پاور پلانٹس زیادہ وقت مکمل بند رہے۔ بندش اور خرابی کے باوجود پیسے دیے جاتے رہے، بعض کو صرف ضرورت کے وقت چلایا گیا مگر کیپسٹی پیمنٹ سب کو ملتی رہی، درآمدی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس کی 10 سالہ کیپسٹی پیمنٹس کا ڈیٹا سامنے آگیا ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق 2015ء سے 2024ء تک 1200 ارب روپے سے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔ عسکری قیادت نے آئی پی پیز نے رونے دھونے میں نہ آئے یہ عوام کو لوٹ کر کھا رہی ہیں اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ بھرنے کا نام نہیں لیتے اس مرتبہ تو کے ای نے ایک اور کمانے کا طریقہ اختیار کر لیا ہر بل پر فکس چارجز 1000 روپے اور 400 روپے کے ایم سی ملی بھگت سے لگ گئے ہیں۔ یہ 1400 روپے ماہانہ کو تو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ٹی وی کے 25 روپے آتے تھے جو اب 60 روپے ماہانہ کر دیے اس پی ٹی وی کو بند کیوں نہیں کیا جاتا اس کو عوام کب دیکھتے ہیں۔ جب حکومت ادارے نہیں چلا سکتی تو عوام سے پیسے لے کر ان کو کیوں چلایا جارہا ہے جس طرح سے یوٹیلٹی اسٹور کو ختم کیا ہے اس طرح پی ٹی وی کو بھی بند کیا جائے۔ ہمارے ملک کے ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے حکومت کی رائٹ سائزنگ پر نہ صرف اعتراض کیا ہے بلکہ وہ اس کمیٹی سے مستعفی ہو گئے بلکہ انہوں نے حکومت کے بارے میں چارج شیٹ پیش کی ہے کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے معیشت ڈوب رہی ہے۔ حکومت شاہانہ اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ 70 محکمے بند کرنے کی سفارش پر حکومت نے صرف ایک ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان جمز اینڈ جیولری کمپنی کو وزارت پٹرولیم کے ماتحت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت اخراجات کو کم کرنا نہیں چاہتی وزراء سیاستدانوں کے ذاتی مفادات ہیں۔ حفیظ پاشا اور عشرت حسین کی کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے لوگوں کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ معیشت کمزور ہے مزید آمدنی پیدا نہیں کر سکتی۔