برطانوی نظامِ تعلیم پر ’’فردِ جرم‘‘

286

برطانیہ کے دو سینئر پروفیسرز نے اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو انتہائی نوعیت کے خطرے سے دوچار بتایا ہے۔ رسل گروپ سے تعلق رکھنے والے دونوں پروفیسرز نے، جو کیمبرج لیول کی تدریس سے وابستہ ہیں، یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ اب برطانیہ میں بھی تعلیم کا معیار برقرار رکھنے یا بلند کرنے پر محض ڈگریاں جاری کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ بے نام بلاگز کے ذریعے اِن سینئر پروفیسرز نے بتایا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم پانے والے بیش تر بیرونی طلبہ مطلوبہ اہلیت نہ رکھنے پر بھی کسی نہ کسی طور ڈگریاں لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ بیرونی طلبہ کی اکثریت انگریزی میں کم از کم مطلوبہ قابلیت کے حامل بھی نہیں ہوتے۔ ایسے طلبہ کو ڈگریاں دیے جانے سے برطانیہ کے اعلیٰ تعلیم کے نظام کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ برطانیہ میں تعلیمی نظام بہت اچھی حالت میں ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ رسل گروپ نامی ادارے کے اِن پروفیسرز نے بتایا ہے کہ بیرونی طلبہ کو انرول کرتے وقت بھی نہیں دیکھا جاتا کہ اْن میں کوئی بات ہے بھی یا نہیں۔ بیش تر برطانوی تعلیمی ادارے صرف فیس کی وصولی کو اہمیت دے رہے ہیں۔ دونوں پروفیسرز نے یہ بھی لکھا ہے کہ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ انگریزی میں مطلوبہ قابلیت نہ ہونے پر بھی ڈگریاں دی جارہی ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں ماسٹرز کی سطح کی تعلیم بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں ماسٹرز کی سطح کی تعلیم کسی زمانے میں انتہائی معیاری اور چیلنجنگ ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ اِس سطح کی تعلیم پاتے تھے وہ کچھ نہ کچھ بن کر اداروں سے نکلتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ماسٹرز کے پروگرام کی ڈگریاں بھی سوچے سمجھے بغیر دی جارہی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے برطانوی نظام کی ساکھ ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن پالیسی انسٹیٹیوٹ کے بلاگ سیکشن میں شائع ہونے والی پوسٹ کے مطابق پروفیسرز کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ کتنے فی صد طلبہ کو انگریزی میں مطلوب قابلیت نہ ہونے پر بھی انرول کرلیا جاتا ہے۔

رسل گروپ برطانیہ میں تحقیق سے متعلق چوبیس جامعات کا مجموعہ ہے۔ پروفیسرز نے اپنی بلاگ انٹری میں لکھا ہے کہ کمتر قابلیت والے بیرونی طلبہ میں بڑی تعداد بھارتی نوجوانوں کی ہوسکتی ہے کیونکہ برطانیہ میں پڑھنے والے بیرونی طلبہ میں واضح اکثریت بھارتی نوجوانوں کی ہے۔ یہ طلبہ ماسٹرز پروگرامز میں بھی انرولمنٹ پاتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ چینی، پاکستانی، نائجیرین اور جنوبی امریکا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی برطانوی جامعات میں انرولمنٹ کراتے ہیں۔ ان میں سے 81 فی صد ماسٹرز کی سطح کے پروگرامز سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جون 2024 میں ختم ہونے والے سال میں برطانیہ نے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد بھارتی طلبہ کو تعلیمی ویزے جاری کیے۔

رسل گروپ کے پروفیسرز کا کہنا ہے کہ کسی دور میں برطانیہ ماسٹرز کی سطح کی تعلیم کے لیے عالمگیر شہرت کا حامل تھا۔ یہ تعلیم بہت محنت طلب ہوا کرتی تھی۔ اس کے نتیجے میں برطانیہ سے پڑھ کر نکلنے والے بیرونی طلبہ اپنے ملک میں یا کہیں اور خود کو ڈھنگ سے منوانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ ماسٹرز کلاسز میں تنوع بھی ختم ہوچکا ہے۔ اب بیش تر کلاس میں تین چوتھائی طلبہ کسی ایک ملک کے ہوتے ہیں۔ باقی طلبہ چند دوسرے ممالک کے ہوتے ہیں اور دو تین مقامی طلبہ ہوتے ہیں۔ کسی ایک ملک کے طلبہ کی واضح اکثریت کے باعث سماجی تفاعل غیر معیاری رہتا ہے اور بیرونی طلبہ کی وہ گرومنگ نہیں ہو پاتی جو ہونی چاہیے۔

رسل گروپ کے پروفیسرز نے لکھا ہے کہ انگریزی میں استعداد کم ہونے کے باعث طلبہ شدید مشکلات محسوس کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اساتذہ کو مواد، پیش کش کا انداز اور کلاس کی رفتار بدلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ سیکھنے کا عمل اب ایپس (Apps) کے حوالے کردیا گیا ہے۔ بیش تر بیرونی طلبہ براہِ راست سیکھنے کے بجائے ایپس کا سہارا لیتے ہیں۔ اساتذہ کلاس میں کوئی سوال پوچھیں تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ جب گروپ ٹاسک دیے جاتے ہیں تو طلبہ ایپس کی مدد سے کام مکمل کرتے ہیں۔ پروفیسرز نے لکھا ہے کہ طلبہ انگریزی سیکھنے کے بجائے ٹرانسلیشن ایپس سے مدد لیتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ سیکھ نہیں رہے تو اساتذہ کو اپنی اہلیت کی سطح سے نیچے آکر سکھانا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اْن کی اپنی قابلیت بھی داؤ پر لگ رہی ہے۔ طلبہ معمولی باتیں بھی نہیں سمجھ پارہے۔ سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اْن کی جان جاتی ہے۔

پروفیسرز کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کو صرف مالی منفعت کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ معقول فنڈنگ نہیں کی جارہی۔ گزشتہ برس برطانیہ نے تعلیم پر خام قومی پیداوار کا صرف 4.1 فی صد خرچ کیا۔ ملکی طلبہ سے ملنے والی فیس بہت کم ہے اس لیے بیش تر تعلیمی ادارے بیرونی طلبہ سے خطیر رقوم وصول کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بیرونِ ملک ایجنٹس بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ گویا تعلیم ایک طرف رہ گئی، اب صرف دھندا چل رہا ہے۔ اساتذہ چپ رہتے ہیں کیونکہ انہیں ملازمت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ پروفیسرز نے لکھا ہے کہ وہ اپنے بہترین طلبہ کو کہیں اور جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اْن کا مشورہ ہے کہ حکومت اس طرف متوجہ ہو، معقول فنڈنگ کرے، تحقیق کا معیار بلند کرے، چیلنجنگ ماحول پیدا کرے تاکہ نئی نسل پڑھنے پر متوجہ ہو۔

(بہ شکریہ: انڈیا ٹوڈے ڈاٹ کام)