ّ7 ستمبر: یوم ختم نبوت

261

کہتے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی اس کے مخالفین نے اس کو ایک ناکام ریاست بنانے کے سازشیں شروع کردیں تھیں۔ گورے انگریز تو چلے گئے مگر پیچھے ملک میں اپنے نمائندے غلام حکمران خان، جاگیردار چھوڑ گئے جنہوں نے قیام پاکستان کی تکمیل کے بجائے نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہی وجہ کہ آج قیام پاکستان کو 76 سال گزرنے کے باوجود لڑاؤ حکومت کرو سمیت کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام، اسلامی دستور، پاکستان کی آزادی تو کبھی قادیانی فتنے جیسے متنازع اشو کو چھیڑ کر مسلمانوں کے جذبات مجروح اور ملک کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ مذکورہ بالا اشوز متفقہ اور بحث مباحثے کے بعد طے ہوچکے ہیں خاص طور قادیانی فتنہ کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ چھیڑا جاتا ہے، یہ کام بڑے پیمانے پر آج بھی ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ 1973 کے آئین کے تحت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298B اور 298C میں نہ صرف یہ کہا گیا کہ قادیانی دائرہ اسلام سے باہر بلکہ ان پر مندرجہ ذیل پابندیاں ہوں گی۔ 1۔ قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہ سکتے۔ 02۔ اذان نہیں دے سکتے۔ 03۔ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ 04۔ اپنے مذہب کی دعوت نہیں دے سکتے۔ 05۔ اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔

1974 میں بڑے بحث مباحثے کے بعد قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے باہر قراردینے کی قانون سازی کے مسودے پر ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کیے۔ مرحوم کے دیگر کارناموں کو چھوڑ کر یہ کارنامہ بہت اہم اور بڑا تھا جس کی بدولت شاید اللہ تعالیٰ ان کے سارے گناہ معاف کردے۔

7 ستمبر کو اس قانون سازی کو 50 سال گزرجانے کے باوجود بھی سازشیں جاری ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح بھی اس قانون سازی کو ختم کیا جائے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قادیانی پاکستان کے آئین و دستور کو نہیں مانتے اور نہ ہی اپنے آپ کو اقلیت تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے جھوٹے نعوذ بااللہ مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے۔ حالیہ عدالت عظمیٰ کے مبارک ثانی کیس میں ایسا ہی متنازع فیصلہ دیا گیا جن کے کچھ نکات پر علماء کرام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ بالآخر نظر ثانی میں عدالت نے اپنا متنازع فیصلہ واپس لیا تاہم اس کا تفصیلی و تحریری فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ عدلیہ کا مبارک ثانی کیس میں متنازع نکات کا واپس لینا اچھا قدم ہے مگر ایسا تیسری بار ہو رہا ہے، آخر کیوں؟

حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ایمان و عقیدے کا حصہ ہے۔ کوئی بھی مسلمان پھر چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ وہ اپنا سر تو کٹوا سکتا ہے مگر عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کوئی آنچ برداشت نہیں کرسکتا۔ سازشی، ملک و اسلام دشمن قوتیں اسلام کلمہ و قرآن کے نام سے معرض وجود میں آئے والے ملک میں کبھی پردے اور ڈاڑھی کبھی قربانی، شادی تو کبھی قادیانی فتنہ کو ہوا دیکر ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملے کر رہی ہیں۔ اس سے قبل 1953 میں مفکر اسلام سید ابو الاعلیٰ مودودی کو مسئلہ قادیانی پمفلٹ لکھنے کے جرم پر اس دور میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تاہم مسلم امہ کے سخت احتجاج کے بعد عمر قید اور بعد ازاں یہ سزا ختم کردی گئی۔ مولانا کی یہ تحریر آج بھی مسئلہ قادیانی کے عنوان سے کتاب کی شکل میں موجود ہے۔ مبارک ثانی کیس میں بھی جماعت اسلامی کے مرکزی ذمے داران مولانا گلزار احمد مظاہروی کے فرزند ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور شیخ القرآن مولانا گوہر رحمان کے بیٹے ڈاکٹر عطاء الرحمن موجود تھے اور کیس میں اپنا حق ادا کیا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان کے دوران ہر سازش کو ناکام بناکر پاک سرزمین پر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا آج بالکل اسی طرح ملک کی نظریاتی سرحدوں اور بنیادوں کے خلاف ہونے والی سازشوں خاص طور پر ختم نبوت تحفظ ناموس رسالت قانون کی چوکیداری سمیت اس حوالے سے ہر فتنہ وسازش کو ناکام بنا ہوگا۔