ختم نبوت کے خلاف فتنہ مرزائیت

112

محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ”محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں، اور اللہ ہر بات جانتا ہے۔(احزاب40:) ۔رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ” میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا” اس امت کے آخر میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کا اجر امت کے پہلے لوگوں جیسا ملے گا ،یہ لوگ نیکی کا کام کریں گے،برائیوں سے روکیں گے اور اہل فتنہ سے لڑیں گے۔(مشکوٰۃ) ۔بندہ مومن کی کامیابی یہ ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کوشاں رہے۔ صرف عقیدہ ختم نبوت رکھنا ہی کافی نہیں بلکہ ختم نبوت کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ اس کام سے وابستہ بلکہ فادیانی فتنہ سے ہوشیار رہنے اور اس فتنہ کی شر انگیزی سے امت کو بچانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرناعین دینی فریضہ ہے اس میں اللہ کی خوشنودی اور رضا ہے۔علماءکرام نے ہمیشہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے اسی وجہ سے جدوجہد کی کہ اس کام سے وابستہ ہونے کی بڑی برکات ہیں۔۱۔اللہ تعالیٰ ضرور گناہ معاف کردیں گے۔۲۔رسول ﷺ کی شفاعت ملے گی ۔ان شاءاللہ اللہ کی خوشنودی سے۔۳۔زندگی سنورے گی آخرت بنے گی۔ ۴۔یہ کام صدقہ جاریہ ہو گا،آنے والی نسلیں بھی اس عظیم جہاد سے وابستہ ہو جائیں گی۔۵۔سب سے بڑا فائدہ امت مسلمہ میں فتنہ پروری کے مقابلہ میں نیک عمل میسر آئے گا۔

برصغیر میں قادیانی فتنہ انگریز کی سازش اور اس کا ہی خود کاشت پودا ہے،انگریز نے قادیانی فتنہ اس لیے کھڑاکیا کہ مسلمانوں کے اندر اللہ کی توحید،قرآن کریم کے احکامات اور رسولﷺ کی ذات گرامی ،جو اہل ایمان کی عقیدتوںاورمحبتوں کا مرکزومحور ہے اسے توڑ دیا جائے اور اہل ایمان کوبے وزن کردیاجائے اور وہ سوکھے پتوں کی طرح اغیار کی گود میں گر جائیں۔ختم نبوت سے وحدت امت کا راز وابستہ ہے۔فتنہ انکارختم نبوت ملی وحدت کوپارہ پارہ کرنے کی ناپاک استعماری سازش ہے، تمام اہل ایمان اورتمام مکاتب فکر مل کر ہی باہمی اتحادواتفاق سے اس فتنہ کی سرکوبی کرسکتے ہیں ۔اکابر علمائے کرام مسلم نوجوانوں نے ہمیشہ اس جدوجہدمیں ہراول دستہ کاکردار ادا کیا اور اس سنت کو زندہ رکھنے کی حکمت عملی کو اپنایا ہے۔ برصغیر کے اکابرعلمانے اپنی زندگیاں اشاعت دین اور تحفظ ختم نبوت میں گزاردیں اور اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔بہت سے گمنام مجاہد بھی اس جدوجہد میں شامل ہیں۔ اکابر علماءکرام میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ،مولانا محمد علی نگیری ؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ،مولاناانور شاہ کاشمیریؒ،مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ،حضرت مولانا ابو سعدخانؒ، حضرت مولانا سید عطااللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ،حضرت مولانا عبدالستارخان نیازیؒ،حضرت مولانا عبداللہ درخواستیؒ، مولانا تاج محمودؒ،مولانا غلام حمد دین پوریؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ،حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ،صبغت اللہ شاہ شہیدپگاڑہ شریف،حضرت حافظ پیر جماعت علی شاہؓ،مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمد نورانی،پروفیسر غفور احمد اور لاتعداد مجاہدین و شہدا نے ختم نبوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو اپنے نور سے بھردے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے،آمین۔

کروڑوں رحمتیں ہوں ان مقدس حضرات پر جن کی شب و روز کی اخلاص بھری جدوجہد اور محنت رنگ لائی۔آج دنیا میں قادیانی رسوا ہورہے ہیں۔ اکابر علما نے انگریز کی فتنہ انگیزی کے خلاف جرا ¿ت سے خطابت کے جوہر دکھائے ۔حضرت مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری کی خطابت نے اہل ایمان میں حرارت پیدا کیے رکھی۔تحریروں کے ذریعے بھی فتنہ قادیانیت کو بے نقاب کیا جاتا رہا ۔ بانی ¿ جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے قادیانی مسئلہ پورے دلائل سے تحریر کیا، جس سے قادیانیت،مرزائیت کا زہر بے نقاب ہوا ۔ اسی جرم میں سید مودودیؒ کو سزائے موت سنائی گئی۔ اسی سے تحریک کو نئی زندگی ملی۔فوجی حکومتوں اور سول بیوروکریسی نے مسئلہ حل کرنے کی بجائے قادیانی فتنہ کی سرپرستی کی،سیکولر بے زاردین،طبقہ نے نے مرزائیت کی پشتی بانی کرکے فتنہ انگیزی کی۔یونیورسٹیز،کالجز،ریاستی اداروں خصوصاً پروفیشنل تعلیمی اداروں میں اس فتنہ کو فروغ دیا گیا۔منظم سازش سے نوجوانوں کے ذہنوں اورعقائد کو تشکیک میں ڈالنے کی سازشیں کی گئیں،دینی محاز پر علما،مدارس اور خطبانے تاریخی کردار ادا کیا۔لیکن یہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کا روشن باب ہے اسلامی جمعیت طلبہ جو یونیورسٹیز ،کالجزاور جدید تعلیمی اداروں کی سب سے موثر،متحرک اور ملک گیر تنظیم ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ صالح نوجوانوں نے عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے بڑاجاندار اور مو ٔثر کردار ادا کیاہے۔

29مئی کے واقعے کے بعداسلامی جمعیت طلبہ نے پنجاب اور ملک بھر میں تحفظ ختم نبوت تحریک اور جلسوں کا آغاز کردیا۔کارواں کاجوش و خروش دیدنی تھا۔طلبہ کے جلسے عوامی رنگ پکڑتے گئے،یہ معاملہ رفتہ رفتہ حکومت اور انتظامیہ کے لیے درد سرکاباعث بن گیا۔اس کے بعد اللہ کی خاص مہربانی اور حکمت سے تمام دینی جماعتیں ،تمام اکابرعلما ءاس تحریک میں شامل ہوگئے اوراس تحریک کی قیادت سنبھالی اور معاملہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ مولانا مفتی محمودؒ۔مولانا شاہ احمد نورانیؒ،مولانا عبدالحکیمؒ،پروفیسر غفور احمدؒ،محمود اعظم فاروقیؒ،صاحبزادہ صفی اللہ ؒ اور دیگر ارکان اسمبلی نے مجاہدانہ کردار سے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیاراور ذوالفقار علی بھٹو کو قائل کرلیا۔ قادیانیت پسپا ہوگئی اور بالآخرعلماءاور مولانا سید مودودیؒ کی علمی کوششوں سے تیار کردہ 1973ءکے آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کی شکل میں فتنہ قادیانیت کی آئینی اور قانونی محاز پر بیخ کنی ہوگئی۔برصغیر میں طویل مدت سے جاری تحریک کو کامیابی کا سنگ میل مل گیا۔ لیکن قادیانیت کے سرپرست یورپ و مغرب اس فتنہ انگیزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی وتہذیبی،فرقہ وارانہ، اقتصادی ، انتظامی بحرانوں کی پشت پر یہ فتنہ متحرک ہے اور پاکستان کو اسلام کی منزل سے دور کرد یناچاہتے ہیں۔آج کا چیلنج یہ ہی ہے کہ تمام اہل ایمان رسول ﷺ کی ختم نبوت جو امت کو کی وحدت کا مرکز محورہے اس شرانگیزی ،فتنہ سازی کے میں مقابلہ میں ہوشیار، متحرک اور بیدار رہیں۔

انگریز اور قادیانی گٹھ جوڑ نے برصغیر کے مسلمانوں کو لاتعدادمسائل سے دو چار کیا ،انگریز اپنا بوریا بستر لے کر ہندوستان سے چلے گئے مگر جاتے جاتے سرظفر اللہ خان کو پاکستان میں متعین کرگئے،قادیانیوں کو انگریز اور ہندؤں کے مفاد کا ضامن مانا گیا کہ پاکستان کو برطانیہ اور ہندوستان کاضمیمہ بروار بنا کر رکھیں گے۔ مسلمانوں کا قادیانیوں سے اختلاف کیا ہے۔یہ خود ان کی زبانی ملاحظہ کر لیا جائے گا۔قادیانی خلیفہ ایک عدالت کے سامنے بیان میں کہتے ہیں کہ :”ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور غیر احمدی آپکو نبی نہیں مانتے۔ اس لیے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔ غیر احمد ی کافر ہیں۔(الفضل جون1922ئ)۔قادیانی مرزا کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور رسول کریم ﷺ قرآن ،نماز،روزہ ،حج ،زکوة غرض ایک ایک چیز میں ہمیں ان مسلمانوں سے اختلاف ہیں۔(الفضل جولائی1931ئ) ۔ قیام پاکستان کے بعد قادیانیت کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمائیے کہ سرظفر اللہ خان نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی اپنے عقیدہ کے مطابق نماز جنازہ نہیں پڑھی۔سر ظفر اللہ خان نے پوری منصوبہ بندی سے قادیانی نیٹ ورک اور بیرونی سرپرستی کے ساتھ وزار ت خارجہ اور سفارت کاروں میں قادیانیوں کو داخل کیا،دوسرے سرکاری اداروں میں بھی انہیں گھسایا،مسلمانوں کی گردنوں پر قادیانی افسر مسلط کیے۔ جس طرح ان کے جی میں آتا حکم چلاتے رہے اورعہدوں اور اقتدار کی چھتری تلے قادیانیت پھیلاتے رہے اورپالیسی سازی پر اثر رسوخ استعمال کرتے ہیں۔

قادیانیت چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں کو عالمی مسائل،نظام عدل کی قیام جس کی بنیادپر اللہ تعالیٰ نے اس کو اُمت کو بنایا ان سے ہٹا کر لغو اور فروعی مسائل کی طرف لگایاجائے۔ جن قوتوں کے ایما پر قادیانیت پیدا ہوئی اس کی حفاظت بھی وہی قوتیں کرتی چلی آرہی ہیں ۔قادیانیت کا مسئلہ کسی ایک ملک یا حکومت کامسئلہ نہیں ہے اور نہ کسی کا گھریلو اور داخلی معاملہ ہے یہ پوری دنیا ئے اسلام کا مسئلہ ہے۔حرمت و عزت رسولﷺ کا سوال ہے،شرف انسانیت کا سوال ہے،اگر اس کرہ عرض پر عقیدہ ختم نبوت کو کمزور کردیا جائے تو اس سے بڑا کوئی شر نہیں ۔ ہمارا ایمان عقیدہ اور یقین یہی ہے کہ اب کسی شخص کے نبی ہونے کا کوئی امکان نہیں ،اللہ نے سلسلہ ¿ نبوت ختم کردیا،جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا،جو وہ کاذب ہے اور اللہ پر افتراء باندھنے والا ہے۔