آج 7 ۔ستمبر ہے ٹھیک50۔ سال قبل ) 1974 ء میں ( پاکستان کی قومی اسمبلی نے لاہوری و قادیانی مرزائیوں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہدکو تسلیم کرتے ہوئے ایک قرار داد ِ اقلیت کے ذریعے غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا اِس سے پہلے پاکستان میں مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں کو کافر کہنا جرم تھا لیکن 7 ۔ ستمبر 1974 ء کے بعد مرزا قادیانی اور اُس کے ماننے والوں کو مسلمان کہنا جرم قرار دیا گیا اور اس آئینی قرار داد ِ اقلیت پر اُس رکن اسمبلی نے بھی دستخط کئے تھے جس نے 1973 ء کے آئین کی تشکیل کے وقت اختلاف کرتے ہوئے اس پر دستخط نہیں کئے تھے گویا یہ قرار داد ِ اقلیت 1973 ء کے آئین سے بھی زیادہ متفق علیہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو برٹش ایمپائر نے اپنی ضرورت کے تحت کھڑا کیا ! ،مرزا غلام قادیانی خود لکھتے ہیں کہ ’’میرے والد غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے ۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کُرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے ۔1857 ء میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گذار ی میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کواس قسم کی مدد کا عندالضرورت وعدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام ِ وقت سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیاں خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں، چنانچہ سر لیپل گریفن صاحب نے اپنی کتاب ’’رئیسانِ پنجاب ‘‘میں ان کا تذکرہ کیا ہے غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بسااوقات ان کی دلجوئی کے لئے حکامِ وقت ڈپٹی کمشنر ان کے مکان پر آکر اِن سے ملاقات کرتے تھے۔‘‘ اشتہار واجب الاظہار مورخہ 30 ستمبر 1897 ء ، صفحہ 3 تا 6 ملحقہ بکتاب البریہ
ہندوستان کے تمام مکاتب فکر نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد ونظر یات کا بغور جائزہ لینا شروع کیا تاہم سب سے پہلے علماء لدھیانہ نے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں پر کفرکا فتویٰ صادر کیا ۔
جس کی ہندوستان کے تمام مکاتب فکر نے تائید وتقلید کی علامہ اقبال مرحوم نے قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا مولانا ظفر علی خان) مرحوم( نے اس مسئلہ پر عوامی بیداری پیدا کی اور سیاسی محاسبہ شروع کیا،محدث العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ نے رجال کار کو منظم کرنے کے لئے مجلس احرار ِ اسلام کی سرپرستی فرمائی،سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو ’’امیر شریعت ‘‘کے خطاب سے نوازا پانچ صد علماء حق نے حضرت امیر شریعت کی بیعت کی ، فتنۂ قادیانیت جس کو اسلام کے نام پر متعارف کرواکر زندقہ و اِرتداد پھیلا یا جارھا تھا کے سدباب کے لئے مجلس احرار ِاسلام نے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت قائم کیا گیا،حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سمیت چوٹی کی مذہبی قیادت نے اس شعبۂ تبلیغ کی عملی سر پرستی فرمائی پاکستان بن گیا تو قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاری کرنے لگے،مرزا بشیر الدین محمود آنجہانی نے 1952 ء کو احمدیت کا سال قرار دیا اور صوبہ بلوچستان کو احمدی سٹیٹ بنانے کی باتیں منظر عام پر آنے لگیں ،موسیو ظفر اللہ خاں قادیانی وزیر خارجہ نے سرکاری حیثیت میں کراچی میں احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا ۔اس سے پہلے مجلس احرار ِ اسلام کی تجویز پر تمام مکاتب فکر دستوری خاکے 22 ۔ نکات میں ترمیم کرکے تیسواں 23) واں) نکتہ منظور کر چکے تھے کہ لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو ملک کی ساتویں اقلیت قرار دیا جائے جس کا تذکرہ بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ میں کر چکے ہیں تین مطالبات :
٭ظفر اللہ خاں سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے ٭مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سول وفوج کے کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے۔یہ تین مطالبات ملک کی مذہبی قیادت نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم سے اہل اقتدار کو پیش کئے ۔مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے مسترد کردئیے گئے ،مطالبات کی منظوری کے لئے پرامن تحریک چلی، تحریک مقدس تحفظ ختم ِنبوت کو ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا۔مال روڈ سمیت لاہور ،ملتان،کراچی ، سیالکوٹ،گوجرانوالہ ،ساہیوال اور دیگر شہروں میں دس ہزار فرزندان ِاسلام کے سینے گو لیوں سے چھلنی کر دئیے گئے تب سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ ’’ میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم چھپا کر جا رہا ہوں جو اپنے ٹائم پر ضرور پھٹے گا میں زندہ رھاتوخود دیکھ لوں گا ۔
ورنہ میری قبر پر آکر بتا دینا ! …‘‘حکمرانوں نے پورے ریاستی جبر کے ساتھ تحریک کو کرش کردیا سکندر مرزا اقتدار کے نشے میں بُری طرح بد مست تھے کہنے لگے کہ یہ کا بینہ کی غلطی ہے کہ اُس نے ان ملاوّں کو پھانسی نہیں دی ،ہمارے مشورے کے مطابق پندرہ بیس علماء کو گولیوں سے اُڑا دیا جاتا تو ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جاتی ،جس روز صبح دولتانہ وزارت بر خاست کی گئی اس رات گورنمنٹ ھائوس لاہور میں سکندر مرزا کا ایک ہی بول تھا ،مجھے یہ نہ بتائو فلاں جگہ ہنگامہ فرو ہو گیا یا فلاں جگہ مظاہرہ ختم ہو گیا ،مجھے یہ بتائو وھاں کتنی لاشیں بچھائی ہیں، کوئی گولی بیکار تو نہیں گئی؟ عبدالرب نشتر ،شورش کاشمیری کے بہترین دوست تھے ،شورش کی ان سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تو فرمایا ’’جن لوگوں نے شیدائیان ِ ختم ِنبوت کو شہید کیا اور ان کے خون سے ہولی کھیلی میں اندر کے راز دار کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے ؟ اور کون کن حادثات و سانحات کا شکار ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن کے قلوب کا اطمینان سلب کرلیا اور اُن کی روحوں کوسر طان میں مبتلا کر دیا ہے ‘‘ اُدھر تحریک ختم ِنبوت اپنے مدارج طے کرتی رہی اور احرارو ختم ِنبوت کا قافلۂ سخت جان ہمت سے آگے بڑھتا رھا تاآنکہ 29 ۔مئی 1974 ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباء عزیز اپنے سیاحتی سفر سے بذریعہ ٹرین واپس آرہے تھے ،کہ چناب نگر ) سابق ربوہ ( ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے ان پر اس لئے حملہ کردیا کہ طلباء نے ٹرین پر جاتے ہوئے اسٹیشن پر ’’ختم ِنبوت زندہ باد‘‘کے نعرے لگا ئے تھے۔پھر کیا تھا ایک آگ لگ گئی اور شاہ جی کا خواب شر مندہ تعبیر ہونے لگا ۔
مجلس تحفظ ختم ِنبوت کی میزبانی میں حضرت مولاناسید محمد انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد خاص حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کی امارت وقیادت میں 1953 ء کی طرح تمام مکاتب فکر اور بعض سیاسی زُعما ایک ہوگئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے تحریک نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،دیوبندی ،بریلوی،اہلحدیث،حتیٰ کے شیعہ کمیونٹی کے مراکز ختم ِنبوت زندہ باد کی فضا سے گونج اٹھے ،حکومت نے بتھیرے جتن کئے لیکن تحریک دن بد ن زور پکڑتی گئی۔بالآخر 22 اراکین قومی اسمبلی نے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے حوالے سے قرار داد پیش کی اور ان سب کی نمائندگی حضر ت مولانا شاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ نے کی 15 اراکین قومی اسمبلی نے بعد میں تائید مزید کی۔13 ۔دن فریقین ) مسلم۔قادیانی( کے مؤقف کوپوری طرح سنا گیا اور قومی اسمبلی میں درج ذیل بل ترمیم پیش کیا گیا : ہر آگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازاں درج اغراض کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔
لہٰذا بذریعہ حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے ۔
1 ۔مختصر عنوان اور آغاز نفاذ ) 1 ( یہ ایکٹ آئین ) ترمیم دوم ( ایکٹ 1974 ء کہلائے گا۔) 2 ( یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا ۔2۔آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جِسے بعدازیں آئین کہا جائے گا،دفعہ 106 کی شق ) 3 ( میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین ’’اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص ) جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں( ‘‘درج کئے جائیں گے۔
3 ۔آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم :آئین کی دفعہ 260 میں شق نمبر2 کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ،یعنی ’’شق نمبر 3 : جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کونبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے ۔‘‘
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانیت کا سیاسی و معاشرتی تعاقب بھی کیا جائے۔اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر صورتحال پر گہری نظر رکھی جائے کہ یہ فتنہ کس طرح سے اپنے ارتداد کو پھیلا رہاہے اور لابنگ کرکے کس طرح پاکستان کو بدنام کر ر ہاہے۔ 2019 میں مبارک ثانی نامی ایک مقدمہ درج ہوا جس میں ملزم قادیانی مطبوعہ تفسیر تقسیم کر رہا تھا جس پر کیس سپریم کورٹ گیا جہاں ججز نے چار دیواری کے اندر اقلیتوں کو اپنی مذہبی سرگرمیوں پر بندش ختم کر دی گئی جس پر نظر ثانی کی درخواست دی گئی،علاوہ ازیں اس پر تمام مذہبی جماعتوں بشمول مجلس احرار اسلام نے دو سے تین دفعہ بھر پور احتجاج کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک قاضی فائز عیسی چیف جسٹس اف پاکستان نے اس نظر ثانی اپیل پر تمام جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کو سپریم کورٹ بلا کر بھرپور بحث کی19اگست حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی ، حضرت مولانا فضل الرحمن کو قانونی اعتبار سے راؤ سعید انور بھٹہ ایڈووکیٹ نے بریفنگ دی اور دیگر کے دلائل کے بعد مبارک ثانی کیس کے پیراگراف 7 اور پیراگراف 42 کو حذف کرنے کا فیصلہ کر دیا جس میں قادیانیوں کی چار دیواری میں بھی غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی، الحمداللہ تمام مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں نے 23 اگست کو یوم تشکر منایا، 7 ستمبر 1974 میں قادیانیوں کو آئینی اور قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر اس ,7ستمبر2024 کو 50 سال مکمل ہونے پر تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام نے گولڈن جوبلی منانے کا فیصلہ کیا اور مجلس احرار اسلام کے مرکزی سرکلر کے مطابق ستمبر کا پورا مہینہ گولڈن جوبلی یوم ختم نبوت کے نام پر ختم نبوت کانفرنسز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ مختلف شہروں اور قصبوں میں بھرپور انداز میں کانفرنسز منعقد کی جا رہی ہیںاللہ کا شکر ہے کہ جس کام کو 40سال قبل راقم الحروف نے مجلس احرار اسلام پاکستان کے پلیٹ فارم سے شروع کیا تھا آج وہ دن(7ستمبر) پوری دنیا خصوصاً پاکستان میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا ہے جو بہت ہی خوش آئند ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اسلام کا مرکز اور امن کا گہوارہ بنائے، آمین یا رب العالمین !