عقیدہ ختم نبوت جزو ایمان ہی نہیں ،اصل ایمان ہے ۔امت مسلمہ کی اساس ہے ۔شان رسالت مآب ﷺ کا روشن ترین باب ہے ۔جسد ملت میں دوڑتا ہوا پیغام زندگی ہے ۔یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ اس پر ایمان نہ رکھنے والا ۔یا شک و شبہ اظہار کرنے ،یا اس میں نقب لگانے والا ،ظلی و بروزی نبی ہونے کے چور دروازے ڈھونڈنے والا حتی کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی مدعئی نبوت سے دلیل مانگنے والا ۔کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔
7ستمبر 1974کو امت مسلمہ نے اپنے اس عقیدے کو دستوری شکل دی اور 1974کی تحریک ختم نبوت کے نتیجہ میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور عقیدہ ختم نبوت کے اظہار کو صدر ،وزیر اعظم و دیگر اہم عہدوں کے حلف کا حصہ بنایا ۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی ۔جس پر پوری قوم نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا اور ملک کے طول و عرض میں بے پناہ خوشی اور تشکر کا اظہا رکیا گیا ۔
قادیانی گروہ کی اسلام مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں پہلے ہی شدید غم و غصہ موجود تھا ۔مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت انگریزوں نے قائم کی تھی اس لئے مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزی سامراج کی تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیئے تھے۔انگریزوں کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جہاد کو حرام کہا ،نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ ،صحابہ کرام ؓ ،اہل بیت کی شان میں بدتگرین گستاخیاں کیں ۔مسلمانوں کو کافر کہا اور اپنے پیروکاروں کے ذریعے انگریزوں اور یہودیوں کے لئے مسلمان ممالک کی جاسوسی کی ۔مرزا قادیانی لعین نے بڑے فخر سے اپنے آپ کوبرطانیہ کا خود کاشتہ پودا تسلیم کیا۔
ہر دور کے مفاد پرست اور لادین حکمرانوں نے قادیانیوں کی سرپرستی کی ۔اس لئے یہ مٹھی بھر گروہ مفادات اور مراعات بھی حاصل کرتا رہا ۔ربوہ میں ریاست کے اندر ریاست بھی قائم کی ۔کلیدی اسامیوں اور عہدوں پر بھی فائز رہا ۔سرکاری خزانوں سے مختلف بہانوں سے بھاری رقوم بھی حاصل کرتا رہا ۔قادیانی بڑے افسروں کے ذریعے نوکریاں دلانے کا جھانسہ دے کر بعض سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو گمراہ بھی کرتے رہے اور پھر ان کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ گئی کہ انہوں نے پوری تیاری کرکے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ان طلبہ پر قاتلانہ حملہ کردیا کہ جنہوں نے ٹور پر جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے ۔ان طلبہ کو ختم نبوت کے حق میں نعرے لگانے کا مزا چکھانے کے لئے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کی ہدایت پر ہزاروں قادیانی آتشیں اسلحہ ،لاٹھیوں ،ڈنڈوں ،ہاکیوں ،سریوں سمیت ان طلبہ پراس وقت ٹوٹ پڑے جب وہ ٹور سے واپس آرہے تھے ۔ایک ایک طالب علم کو پکڑ کر لٹاتے اور اس پر سریوں ،ڈنڈوں سے پل پڑتے اور سب کو وحشیانہ تشدد سے بری طرح زخمی کردیا ۔ڈاکٹر ارباب عالم خان نشتر میڈیکل کالج ملتان کے یونین صدر اس گروپ کی قیادت کررہے تھے ۔ڈاکٹر حفیظ انور ،ڈاکٹر رفعت اور ڈاکٹر قاضی سمیت فائنل ایئر کے کئی طالب علم اور مستقبل کے معروف ڈاکٹروں کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر شدید زخم آئے اور سر پھاڑ دیئے گئے۔اس ظلم کے خلاف پورے ملک سے عوام نے سخت ترین ردعمل کا اظہار کیا ۔دینی تنظیموں ،مذہبی جماعتوں نے شہرشہر جلسے کئے جن میں ہزاروں فرزندان اسلام اور شمع رسالت ﷺ کے پروانے شریک ہوتے اور ختم المرسلین ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت کو نصف صدی گزر چکی ۔اس تاریخی فیصلے کی گولڈن جوبلی پوری امت مسلمہ کو مبارک ہو ۔آج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں ۔امت مسلمہ با لخصوص پاکستانی قوم کا ہر فرد ختم نبوت میں نقب لگانے کی کسی ناپاک جسارت کو معاف نہیں کرے گا۔حکمرانوں کو بھی اپنا قبلہ ہمیشہ کیلئے درست کرلینا چاہئے کہ اگر انہوں نے ایسی کسی سازش کا ساتھ دیا تو وہ دن ان کے اقتدار کا آخری دن ہوگا۔اسلامیان پاکستان ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔