چند روز پہلے ہم نے پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منایا۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو قائم ہوا تھا اس اعتبار سے اس کا یوم پیدائش 78 واں ہے البتہ اس کی سالگرہ اگلے سال منائی گئی۔ سالگرہ کو آپ جشن آزادی بھی کہہ سکتے ہیں اس طرح پاکستان کی عمر کے 77 سال پورے ہونے پر گزشتہ روز جشن آزادی منایا گیا۔ آزادی قوموں کی زندگی میں وہ نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ وہ آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتی ہیں۔ انسان تو کیا جانور اور پرندے بھی آزادی کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہیں۔ آپ نے ایک توتے کی حکایت تو سنی ہوگی۔ ایک توتا انسان کی قید میں تھا وہ اُسے پنجرے میں بند رکھتا اور اسے انواع و اقسام کے پھل کھلاتا توتا انسانوں کی بولی بولتا اور اکثر اپنے مالک سے مایوسی کی باتیں کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کا مالک اپنے کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر جارہا تھا اس نے توتے سے پوچھا ’’میاں مٹھو میں تمہارے لیے کیا تحفہ لے کر آئوں‘‘ توتے نے جواب دیا ’’تم جنگل میں جانا اور میرے ہم جنسوں سے ملاقات کرنا اور ان سے کہنا کہ تمہارا ایک ساتھی پنجرے میں قید ہے اور آزادی کے لیے تڑپ رہا ہے کوئی ترکیب بتائو کہ وہ آزاد ہوسکے‘‘ وہ شخص سفر پر گیا تو اُسے توتے کی بات یاد آئی اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے توتے کا پیغام اس کے ہم جنسوں تک پہنچادوں۔ دیکھتے ہیں وہ کیا ترکیب بتاتے ہیں توتے کو آزادی دینا یا نہ دینا تو میرے اختیار میں ہے۔ چنانچہ وہ شخص جنگل میں گیا تو ایک درخت پر اُسے توتوں کا جھنڈ نظر آیا اس نے جھنڈ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے توتے کا پیغام پہنچایا تو جھنڈ میں حرکت ہوئی اور کئی توتے درخت سے گر کر زمین پر تڑپنے لگے اور آہستہ آہستہ بے حس ہوگئے۔ اس شخص کو بڑی حیرت ہوئی اس نے سفر سے واپس آکر اس واقعے کا ذکر اپنے توتے سے کیا۔ وہ یہ سنتے ہی پنجرے میں تڑپا اور گر کر بے حس و حرکت ہوگیا۔ اس شخص نے حیران ہو کر توتے کو پنجرے سے نکالا اور مردہ سمجھ کر زمین پر پھینک دیا۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ توتے میں حرکت ہوئی اور وہ اُڑ کر درخت پر جا بیٹھا۔ اس نے آدمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اے بیوقوف انسان میرے لیے یہی پیغام تھا کہ آزادی کے لیے جان کی بازی لگانی پڑتی ہے‘‘۔
بس یہی کہانی برصغیر کے مسلمانوں کی بھی ہے انہوں نے بھی جان کی بازی لگائی تو آزادی کی صبح نصیب ہوئی۔ انہوں نے عملاً ہزاروں لاکھوں انسانی جانوں کی قربانی دی، بے شمار مائیں بیوہ ہوئیں، بہنوں کے سہاگ لٹے، بیٹیوں کی عزت پارہ پارہ ہوئی پھر کہیں جا کر ہم خون کا دریا عبور کرکے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔ یہ آزادی ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی۔ اس آزادی کے لیے اُن علاقوں کے مسلمانوں نے قربانیاں دی جن کی قسمت میں پاکستان نہیں تھا۔ انہوں نے ہندو اکثریت کے علاقے میں پاکستان کے قیام کی جنگ لڑی اور اس کے نتیجے میں انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوئوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ پاکستان بنے 77 سال ہوگئے ہیں، مسلمانوں کی بھارت میں رہتے ہوئے تین نسلیں گزر چکی ہیں لیکن ابھی تک ہندوئوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا وہ انہیں بحیثیت مسلمان دیکھنے کے روا دار نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یا تو وہ اکثریت میں ضم ہوجائیں یا پھر مرنے کے لیے تیار رہیں۔ یوں دیکھا جائے تو بھارت کے مسلمان پاکستان بنانے کی سزا ابھی تک بھگت رہے ہیں اور مسلسل زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔
پاکستان بن گیا تو اس کے دشمنوں کا خیال تھا کہ یہ بے وسیلہ اور بے سایہ ملک چند مہینوں سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے گا اور پکے ہوئے پھل کی مانند ہماری جھولی میں آ گرے گا لیکن قدرت نے یاوری کی اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا بلکہ تیزی سے ترقی بھی کرنے لگا لیکن یہ ترقی بیرونی استعماری طاقتوں خاص طور پر امریکا کو پسند نہ آئی اور انہوں نے اس ملک میں فوجی انقلاب برپا کرکے قوم پر جنرل ایوب خان کو مسلط کردیا جو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے اپنی ہی قوم کی آزادی سلب کرنے اور پاکستان کا حلیہ بدلنے میں مصروف ہوگئے۔ وہ امریکی ایجنڈے کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے اور پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کے بجائے ’’عوامی جمہوریہ‘‘ یعنی اسلامی ملک کی جگہ سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ وہ تو کہیے جماعت اسلامی بروئے کار آچکی تھی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان بنتے ہی اسلامی نظام کی تحریک برپا کرکے عوام میں غیر معمولی اسلامی شعور بیدار کردیا تھا اس لیے جنرل ایوب خان اپنے منصوبے میں بری طرح ناکام رہے۔ البتہ انہوں نے اپنی فوجی آمریت کے ذریعے عوام کا وہ حال کردیا جس کا ذکر منیر نیازی نے اپنے اس شعر میں کیا ہے۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو!!
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
برصغیر کے مسلمان خون کا دریا عبور کرکے پاکستان تو پہنچ گئے تھے لیکن اب ان کے رستے میں فوجی آمریت کا جو دریا حائل ہوا اس نے ان کی مت ہی مار دی وہ آج تک اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اپنی ہی فوج کے جرنیلوں نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے بجائے پاکستان پر قبضہ کیوں کرلیا ہے۔ یہ وہ دریا ہے جس کا پاٹ سکڑنے کے بجائے مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بعد جو بھی جرنیل اقتدار پر قابض ہوا اس نے پاکستان کی سالمیت اور اس کے قومی وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اب چونکہ دنیا میں فوجی آمریت کا چلن نہیں رہا اس لیے فوجی مقتدرہ اپنے سول گماشتوں کے ذریعے حکومت کررہی ہے۔ یہ سول گماشتے اگر الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آتے تو بھی بات بن سکتی تھی لیکن یہ لوگ سراسر جعل سازی کے ذریعے اقتدار میں لائے گئے ہیں اور ان کا عوام سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ عوام میں بے چینی ہے، نوجوانوں میں بے چینی ہے، خواتین میں بے چینی ہے، مزدوروں اور کسانوں میں بے چینی ہے، حتیٰ کہ بچوں میں بھی بے چینی ہے۔ اس بے چینی کو سوشل میڈیا اور ہوا دے رہا ہے، بنگلا دیش کے حالیہ واقعات نے بھی اس بے چینی کو مزید بڑھایا ہے جس کا اظہار پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر بھی ہوا ہے۔
یہ آزادی ہمیں پلیٹ میں رکھی نہیں ملی تھی اس کے پیچھے برصغیر کے مسلمانوں کی عدیم النظیر سیاسی جدوجہد اور جان و مال کی بے مثال قربانی موجود ہے۔ کیا اس جدوجہد اور قربانی کا حاصل یہی ہے کہ ایک خاص مقتدرہ اقتدار پر قابض ہوجائے اور عوام کی اپنے نمائندے منتخب کرنے اور اپنی منتخب نمائندہ حکومت قائم کرنے کی آزادی سلب کرے۔ جشن آزادی آج ہم سے یہی سوال کررہا ہے اور پاکستان سراپا سوال بنا ہوا ہے۔