تحریک ِ انصاف کے ایک رہنماء کا کہنا ہے کہ عوام کی بد حالی اور ملکی معیشت کی تباہی کی ذمے دار حکومت ہے ہر مسلمان جانتا ہے کہ سودی نظام اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف ہے اس کے باوجود حکومت سودی نظام سے چمٹی ہوئی ہے۔ اگر حکومت سودی نظام ختم کر دے تو قوم خوشحال اور ملکی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ موصوف کے مذکورہ بیان پر مختلف تبصرے کیے گئے ہیں جن کا ذکر کرنا ایک غیر دانش مندانہ فعل ہوگا سو اس تبصرے سے در گزر کرتے ہوئے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اْن کی حکومت بھی لگ بھگ 4 سال تک حکمرانی کے چسکے لیتی رہی ہے۔ اگر یہی مشورہ اپنے پیرو مرشد کو دیتے تو محترم قرار پاتے۔
جماعت ِ اسلامی تو ایک مدت سے سودی نظام کی تباہ کاریوں سے حکومت اور قوم کو آگاہ کر رہی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آگاہی کے اس عمل کو عذاب سمجھا جاتا ہے۔ شریعت عدالت نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ دیا تو اْس وقت کے وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف نے عدالت عظمیٰ میں دھرنا دے دیا یوں سودی نظام کے خلاف دیا گیا فیصلہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا مسلمان سمجھا جاتا ہے شنید ہے کہ وہ صوم و صلوۃ کے پابند ہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب اسلام اْن کی سیاست کی مذمت کرتا ہے تو یہ لوگ اپنے سیاسی نصب العین کو فوقیت دیتے ہیں۔
حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اسلامی نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ سودی نظام ہے۔ سو لازم ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سودی نظام ختم کیا جائے کیونکہ سود کی کمائی سے حاصل کیا جانے والا رزق اسلام سے بے زاری کا سبب بنتا ہے یوں بھی جو معاشرہ اسلامی نہ ہو وہاں اسلامی نظام تشکیل نہیں پاسکتا اس لیے ضروری ہے اسلام سے پہلے اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جائے کیونکہ جب تک اسلامی رہن سہن اختیار نہ کیا جائے شریعت پر عمل نہیں ہوسکتا۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک حافظ ِ قرآن شخص کھلے عام سودی کاروبار کرتا ہے اس کے باوجود معاشرے میں باعزت سمجھا جاتا ہے اہل ِ محلہ قرآن پاک پڑھنے کے لیے بچے اس کے سپرد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے حالانکہ وہ شخص قابل ِ مذمت ہے اْس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر لوگوں کی نظر میں سود پر رقم دینا کاروبار سمجھا جاتا ہے ظاہر ہے اس کی درس گاہ سے فارغ ہونے والے بچے اچھے مسلما ن کبھی نہیں بن سکتے اگر لوگ اس کے سودی کاروبار سے نفرت کریں اور اپنے بچوں کو اس کی درس گاہ سے دور رکھیں تو ممکن ہے کہ وہ اچھا مسلمان بننے کی کوشش کریں اور یہ کام معاشرہ کو اسلامی بنائے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جھوٹی گواہی دینے کو غیر اسلامی فعل قرار دیا جاتا ہے کہتے ہیں جھوٹی گواہی دینے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے مگر جھوٹی گواہی کاروبار بن گئی ہے۔ حالانکہ جج صاحبان کو علم ہوتا ہے کہ گواہ جھوٹا ہے کیونکہ وکلا سے ایسے گواہ ہمہ وقت دستیاب ہو سکتے ہیں جھوٹی گواہی کا ایک بڑا سبب یہ بتایا جاتا ہے کیونکہ عدالت میں صرف یہ کہہ کر بیان ریکارڈ کرایا جاتا ہے کہ ’’جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘‘ حالانکہ کہ انڈیا میں بھی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر گواہی دی جاتی ہے۔