فوجی عدالتوں میں سیاسی کارکنوں کے مقدمات

1082

سپریم کورٹ نے فوجی عدالت میں شہریوں کا مقدمہ چلانے کی مشروط اجازت دے دی ہے اور سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے 23 اکتوبر کو 4-1 کے اکثریتی فیصلے سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع اور تین صوبائی حکومتوں نے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی تھی جس کی سماعت کرتے ہوئے 6 رکنی لارجر بنچ نے 5-1 کے اکثریتی رائے سے پیش رو لارجر بنچ کے فیصلے کو کالعدم کردیا۔ البتہ تفصیلی فیصلے کے اجرا سے قبل فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کی اجازت سے مشروط کردیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے پاکستان میں پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑا تھا اس احتجاج کے بعد پاکستان کی مقتدر طاقت نے حکومت سے جو اقدامات کروائے تھے ان میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف مقدمات کے لیے فوجی عدالتوں کی تشکیل بھی تھا۔ فوجی عدالتوں کی تشکیل اور عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کے فوجی عدالت میں ٹڑائل کے خلاف سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ اور سول سوسائٹی کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے درخواستیں دائر کی تھیں۔ 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور وزارت دفاع سے مقدمات کی تفصیل بھی طلب کرلی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا عمل جاری تھا اور اس کی تفصیل آخر وقت میں سپریم کورٹ کو دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع اور صوبائی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی جس کی سماعت 6 رکنی لارجر بنچ نے کی جس نے 5-1 کی اکثریتی رائے سے پیش رو بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کئی حساس مقدمات زیر سماعت ہیں۔ قومی سیاسی بحران عروج پر ہے اس بات پر تقریباً اتفاق ہوگیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی بحران اور ناکام طرز حکمرانی اور عوام کے حالات کی خرابی کا سبب سیاسی اداروں پر عسکری ادارے کی بالادستی اور سیاسی امور میں مداخلت ہے۔ جو دستور اور آئین کے خلاف ہے۔ اس بات پر بھی رائے عامہ میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قیادت اور سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے۔ عدالتوں کے اکثر سیاسی فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے دبائوکے تحت ہوتے ہیں۔ جو آئین اور قانون کے خلاف ہیں۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کئی ایسے مقدمات بھی کھول دیے ہیں جن کا تعلق ماضی میں عدالتوں کے ایسے فیصلے سے ہے جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو خراب کیا، دستور کی تنسیخ، معطلی اور فوجی آمریت کو جواز عطا کیا۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ، ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری کے بھیجے گئے۔ ریفرنس پر سماعت اور ٹیلی ویژن پر براہ راست نشریات کا حکم دینا، اسی مسئلے کا حصہ ہے۔ جبکہ فوجی عدالت کا تصور تو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ سول حکومت کے شعبے میں خصوصی عدالتوں کا تصور بھی موجود ہے جسے قبول تو کرلیا گیا ہے لیکن وہ بھی عدل کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ اس کے مقابلے میں فوجی عدالت کو تو عدالت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے جب حکومت نے فوجی عدالت میں جانے کا اعلان کرتے ہوئے سینئر وکیل قانون دان اور سیاسی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ کون جج ہے جو فوجی عدالت کو جائز قرار دے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ ماضی کے واقعات کو تو کریدا جارہا ہے لیکن جبر کی قوتیں آمرانہ انداز میں کی جانے والی حکمرانی کی پامالی کا تماشا دیکھا جارہا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا مقدمہ بھی بحال ہوگیا ہے جنہوں نے فوجی افسروں کا نام لے کر الزام عائد کیا تھا کہ انہیں سیاسی رہنمائوں کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف بننے کے بعد سیاسی اور جمہوری قوتوں کو توقع تھی کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کمیٹی میں بھیجے جانے والے ریفرنس اور حکومتی کارروائی اور دبائو کا مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ اس سے پہلے بھی فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں لیکن انہوں نے خود کو اس حساس مقدمے کی سماعت سے دور رکھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے عدلیہ پر دبائو کی وجہ سے عدلیہ میں تقسیم نظر آتی ہے۔ مقدمے کی سماعت کی جو تفصیل سامنے آئی ہے وہ بھی اسی تقسیم کا اشارہ ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ایک مہم چل پڑی تھی اور وہ ظاہر کررہی تھی کہ اسے مقتدر اسٹیبلشمنٹ نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کا مسئلہ اتنا حساس ہے کہ سپریم کورٹ ایک سابق چیف جسٹس (ر) محسوس کہا کہ انہیں خود مدعی بن کر جانا چاہیے۔ اس مسئلے پر عدالت کی جو رائے سامنے آئی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کو صرف اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کی وجہ سے قبول کیا گیا ہے۔ یہ دبائو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ ہو یا سیاسی کارکنوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل یہ دبائو ہمیشہ رہتا ہے۔ یہ صورت حال چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا امتحان ہے اور ان سے توقعات رکھنے والے افراد بھی مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اس لیے کہ ایسا سماج جس میں انسانی حقوق کی پامالی ریاستی اداروں اور حکومتوں کی جانب سے ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔