شادی

1076

انسانی تہذیب کے زوال کا ایک پہلو یہ ہے کہ شادی کا تصور اپنی اصل میں الٰہیاتی اور کائناتی سطح اور مفہوم کا حامل تھا مگر ہماری دنیا میں شادی اب صرف ایک سماجی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ بلکہ مغربی دنیا میں تو شادی کی بے توقیری اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہاں شادی طلاق حاصل کرنے کا ایک بہانہ بن گئی ہے۔
اسلامی تہذیب میں بعض اکابر صوفیا بالخصوص شیخ محی الدین ابن ِ عربی نے شادی کو الٰہیات اور کائناتی سطح پر دیکھا اور بیان کیا ہے۔ شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں۔
’’کسی چیز سے ایسی کسی بھی شے کا وجود میں آنا جو پہلے سے موجود نہ تھی شادی کی صفت ہے۔ دنیا میں کوئی عمل بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی حقیقت کے مطابق اور اپنے طریقے سے کسی چیز کو وجود نہ بخشے۔ چناں چہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شادی ہر چیز کی اصل ہے۔ شادی جامعیت، کمال اور ترجیح کا مظہر ہے‘‘۔
ابن عربی ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’مقرر کی حیثیت ایک باپ کی سی ہے اور سامع کی حیثیت ماں کی اور مقرر کی گفتگو دراصل شادی کے ہم معنی ہے۔ گفتگو سے سامع جس تفہیم تک پہنچتا ہے وہ گویا بیٹے کی طرح ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو باپ بالادست ہے کیونکہ وہ اثر انداز ہوتا ہے اور ہر ماں زیر دست ہے کیونکہ وہ اثر قبول کرتی ہے اور دونوں کے درمیان تعلق کی صورت شادی ہے اور شادی کا نتیجہ اولاد ہے‘‘۔
شیخ محی الدین ابن عربی نے ایک اور مقام پر لکھا۔
’’کائناتی روح عقل اوّل کی بیوی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ظاہر کرنے کے لیے دونوں کو یکجا کیا تو کائناتی روح نے جس بچے کو جنم دیا اسے فطرت کہتے ہیں‘‘۔
ابن عربی کا یہ تناظر صرف انہیں تک محدود نہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے شاعر مولانا روم نے ایک جگہ فرمایا ہے۔
’’عقل کے نزدیک آسمان مرد اور زمین عورت ہے۔ آسمان سے جو کچھ آتا ہے زمین اس کی آبیاری کرتی ہے‘‘۔
اسلامی فکر کے دائرے میں مرد اور عورت کے تعلق کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کی مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود میں ذات اور صفات کے درمیان جدائی یا علٰیحدگی نہیں ہے لیکن مرتبہ ٔ ظہور میں ذات اور صفت مرد اور عورت کی صورت میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہیں۔ چناں چہ اسلام میں شادی کے ادارے کی اہمیت اور معنویت یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اکرمؐ کی سنت کے مطابق ذات اور صفت کا اتصال اس طرح ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اکائی یا وحدت بن جاتے ہیں۔ ان کی یہ وحدت الٰہیاتی اور کائناتی مفہوم کی حامل ہوتی ہے۔ مرد اور عورت کے اس تعلق کو ایک اور حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ سیدنا آدم جنت میں تھے اور تمام نعمتیں ان کو میسر تھیں مگر اس کے باوجود وہ اداس رہتے تھے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ سے ان کی رفاقت اور تسکین کے لیے ان کی پسلی سے اماں حوا کو پیدا کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عورت مرد کی ذات کا حصہ ہے اور ان کے درمیان وہی تعلق ہے جو کُل اور جزو کے درمیان ہوتا ہے۔ مرد عورت کی محبت محسوس کرتا ہے تو یہ کُل کی جزو سے محبت ہوتی ہے اور عورت مرد کی محبت محسوس کرتی ہے تو یہ جزو کی کُل سے محبت ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شادی جزو کو کُل سے ملانے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کا تعلق دو حریفوں کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ حلیفوں کا تعلق ہے۔ ایسے حلیفوں کا تعلق جو مرتبہ ٔ ظہور میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں اور شادی ان کے ہجر کو وصال میں بدل دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کا بامحاورہ ترجمہ کیا جائے وہ وصال اور وجود کے دو حصوں کے اتصال کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہماری زبان میں شادی کا ایک مفہوم مسرت ہے اور یہ مسرت اس بات کی ہے کہ ذات اور صفت باہم مل رہے ہیں۔ کُل اور جزو کا ملن ہورہا ہے اور زندگی اس مفہوم اور اس حسن و جمال کی حامل ہورہی ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ فی زمانہ مسلمان بھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ طلاق اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ چیزوں میں سے ایک کیوں ہے؟ بدقسمتی سے ہم طلاق کو سماجی، معاشی یا زیادہ سے زیادہ نفسیاتی حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ طلاق کی اصل ہولناکی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ذات اور صفت میں جدائی ہو جاتی ہے۔ کل جزو سے بچھڑ جاتا ہے۔ آسمان زمین سے الگ ہورہا ہوتا ہے۔ دو کائناتیں ایک دوسرے سے الگ ہورہی ہوتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ طلاق وجود، زندگی اور کائنات کی ہم آہنگی میں انتشار کی آندھی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔
بلاشبہ شادی کے سلسلے میں مسلمانوں کا شعور باقی مذاہب کے ماننے والوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ لیکن مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نکاح کرتے ہیں اور ان کے نکاح میں خطبہ نکاح بھی پڑھا جاتا ہے لیکن اکثر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ خطبہ ٔ نکاح میں کیا پڑھا جاتا ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟ مختصر سے خطبہ ٔ نکاح میں مسلمانوں کو تین بار اللہ تعالیٰ سے ڈرایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ انسان کو ایک نفس ِ واحدہ سے وجود بخشا گیا ہے۔ اور نفس ِ واحد سے اس کا جوڑا کیا گیا اور اس جوڑے سے تمام مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈراتے ہوئے ایک جگہ اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کی نشاندہی کی گئی ہے اور تیسری جگہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو ایمان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شادی اور اس کا برقرر رہنا تخلیق کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کا تقاضا بھی ہے۔ اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ خطبہ ٔ نکاح کا ایک مفہوم یہ ہے کہ شادی کے ذریعے اصولِ کثرت کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ لیکن مرد اور عورت شادی کے ذریعے ہی ایک دوسرے کا لباس بنتے ہیں۔ لباس کی مثال حسّی یا Sensous اور جمالیاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن شوہر اور بیوی کے تعلق کو صرف روحانی اور کائناتی معنی میں بیان نہیں کرتا بلکہ وہ اسے حسّی اور جمالیاتی سطح پر بھی بیان کرتا ہے۔ تعلق کی حسّی سطح اصل میں جسمانی سطح ہے اور شادی کے ادارے کی اہمیت، معنویت، قدر و قیمت اور عظمت یہ ہے کہ وہ انسان کی ’’جسمانیت‘‘ کو بھی ’’روحانیت‘‘ بنا دیتا ہے۔ جدید اردو غزل میں اس پہلو کو سلیم احمد نے جس طرح سمجھا اور بیان کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے۔
بدن میں روح کا در پھوٹتا ہے
نہیں ہوتی محبت بالا بالا
یہ اِکھوا تہہ کے اندر پھوٹتا ہے
٭٭
زمانہ، نوکری، گھر، فکرِ دنیا
یہ رنگینی کا افسانہ نہیں ہے
تجھے چاہا ہے پورے جسم و جاں سے
محبت کا الگ خانہ نہیں ہے
٭٭
عجیب نسبت ہے باہم جان و تن کی
بجا ہے روح کا پھل ہے محبت
یہ پھل پکتا ہے گرمی سے بدن کی
٭٭
بدن کی آگ کو کہتے ہیں لوگ جھوٹی آگ
اس آگ نے مرے دل کو مگر گداز کیا
احادیث مبارکہ کے حوالے سے دیکھا جائے شادی کے کچھ اور پہلو آشکار ہو کر سامنے آتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں مرغوب ہیں۔ عورت، خوشبو اور نماز۔ علامہ کاشانی نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث میں نماز کا ذکر سب سے آخر میں ہوا ہے۔ چناں چہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کا تعلق اور خوشبو نماز کو بہترین بنانے میں مددگار ہیں۔ ایک حدیث شریف میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت پر عمل نہیں کرتا اس کا مجھ سے تعلق نہیں۔ ایک حدیث پاک میں آیا ہے کہ شادی کرنے والا نصف دین کو پالیتا ہے۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے دائرے میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبت شادی کی عمارت سے ہے۔ ایک حدیث شریف میں آپؐ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لیے اسلام کے بعد ایک ایسی مسلم بیوی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے کہ شوہر اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کردے۔ شوہر اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور جب شوہر اس کے پاس نہ ہو تو شوہر کی مِلک کی حفاظت کرے۔
امام غزالی نے شادی کے کئی بڑے فائدے بیان کیے ہیں۔ ان کے نزدیک شادی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسانی نسل کا تسلسل برقرار رہتا ہے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ شادی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دین کی حفاظت ہوتی ہے۔ جنسی جبلت کی تسکین جائز طریقے سے ہوجاتی ہے تو انسان حرام کھانے سے بچ جاتا ہے۔ شادی کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ جسمانی بھوک کو محدود کردیتی ہے یا اسے حد میں رکھتی ہے۔ شادی کا چوتھا فائدہ یہ ہے کہ یہ زوجین کے لیے نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی تسکین کا ذریعہ ہے۔ شادی کا پانچواں فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے گھر کی دیکھ بھال کا اہتمام ہوجاتا ہے اور بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی اکرمؐ جب وحی کے بار سے تھک جاتے تھے تو آپؐ سیدہ عائشہؓ کا ہاتھ پکڑتے اور فرماتے ’’عائشہ مجھ سے بات کرو‘‘۔
ہماری مذہبی روایت بتاتی ہے کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں۔ یہ بات درست ہے مگر یہ آدھی بات ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ آسمان پر صرف جوڑے نہیں بنتے بلکہ آسمان پر شادیوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور ان میں اہل آسمان شریک ہوتے ہیں۔ بعد میں شادیاں زمین پر منعقد ہوتی ہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے چیزوں کے عدم سے وجود میں آنے کے عمل کو پہلی شادی کی مثال قرار دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا ہے کہ اس عمل میں اسماء الحسنیٰ کی نوعیت شادی میں شریک مہمانوں کی سی ہے جو اس بات پر مسرور ہوتے ہیں کہ اگر شادی کا عمل نہ ہوتا تو ان کے خصائص بھی کبھی کائنات میں ظاہر نہ ہوتے اور وہ ایک پوشیدہ خزانہ بن کر رہ جاتے۔