میئر کا انتخاب اور اسٹیبلشمنٹ کا امتحان

892

کراچی سٹی کونسل کی مخصوص نشستوں پر انتخابات مکمل ہوگئے ہیں جس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے اپنی واضح اکثریت ثابت کر دی ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سٹی کونسل میں سب سے بڑی قوت کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ بلاشبہ کراچی کی میئر شب پر جماعت اسلامی ہی کا حق بنتا ہے لیکن جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے جس طرح سے ان بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی اور ریاستی مشینری کا استعمال کرکے الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے بوگس ووٹنگ، نتائج کی ٹمپرنگ کی اور پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کر کے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا ہے اس نے پوری دنیا کے سامنے پیپلز پارٹی کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے ان کے اس عمل سے پوری دنیا کو علم ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کس طرح سے گزشتہ 15برسوں سے سندھ کے اقتدار پر قابض ہے۔
پیپلز پارٹی گزشتہ 15سال سے سندھ کے اقتدار پر قابض ہے اور صوبے کے سیاہ وسفید کی مالک بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں تقریباً آٹھ ہزار ارب روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر پیپلز پارٹی ڈکار چکی ہے۔ پورا سندھ موہن جودڑو کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اسپتال میں مریضوں کے لیے علاج معالجہ تو دور کی بات بستر تک نہیں ہیں اور مریض لاوارثوں کی طرح زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔ بیرون ممالک سے این جی اووز کا فنڈ آرہا ہے تو اس سے کراچی کے کچھ اسپتالوں میں کام ہوا، اس کا کریڈیٹ بھی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت لے لیتی ہے۔ گزشتہ دنوں کورنگی نمبر پانچ کے بچوں کے اسپتال کا وزیراعلیٰ سندھ نے سال میں دوسری مرتبہ افتتاح کردیا۔ پہلے بچوں کی ایمرجنسی اور ابھی گزشتہ ماہ وارڈ کا افتتاح کیا اور میڈیا کے سامنے بڑی بڑھک ماری جب کہ سب جانتے تھے کہ کچھ ماہ قبل ہی اس کا پہلے بھی وزیراعلیٰ نے ہی افتتاح کیا تھا۔ اربوں روپے کا فنڈ تعلیم اور صحت کے نام سے بیرون ممالک سے این جی اووز کے نام پر آرہے ہیں اور کوئی ان کا حساب کتاب نہیں ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں پیپلز پارٹی اول روز سے رخنہ ڈالے بیٹھی تھی پہلے اس نے اپنا سیاسی ایڈمنسٹر مرتضی وہاب کو شہر پر مسلط کیا اور اربوں روپے کی کرپشن کی گئی غیر معیاری سڑکیں بنائی گئیں جو دوماہ میں ہی ریت کا ڈھیر بن گئیں۔ پیپلز پارٹی مسلسل دو سال تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی لیکن عدالت عظمیٰ کے حکم پر بالآخر اُسے 15جنوری کو انتخابات کرانا ہی پڑے، حلقہ بندیوں سے لیکر بوگس ووٹنگ، نتائج کی تبدیلی، الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں دھاندلی، غیر آئینی، غیرقانونی اور غیر جمہوری تمام ہتھکنڈوں کو اختیار کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی میئر کراچی کے لیے اپنے نمبر پورے نہیں کر سکی اور اس کے پاس تمام اتحادیوں کو بھی ملا کر کل تعداد 166 بن رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حمایت کے بعد جماعت اسلامی کے کل نمبر 193 بن چکے ہیں۔ میئر کی کامیابی کے لیے 180 ووٹ درکار ہیں پیپلز پارٹی اب وہ کون سا غیر جمہوری حربہ اختیار کرے گی جس سے وہ اپنے نمبر پورے کر سکے گی۔ دھونس، دھاندلی، گرفتاریوں، لالچ، خریدو فروخت کے تمام حربے استعمال کر کے وہ اپنا جیالا میئر لانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمینوں کی گرفتاریاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ پیپلز پارٹی 9مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے پولیس ودیگر ریاستی اداروں کو تحریک انصاف کے چیئرمینوں کی وفاداری تبدیل کرنے کے کام پر لگا دیا گیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن کی فیصلہ کن اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے غیر جمہوری حربے اور حکومتی طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے۔
کراچی کے عوام جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مصائب اور مشکلات میںگھرے ہوئے تھے نے اپنے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کو ووٹ دیے۔ عوامی خواہشات کا احترام ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس سارے عمل میں اپنی ساکھ کو بری طرح پامال کیا ہے اور وہ اس نے سندھ حکومت کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا ہے۔ غیرقانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے جماعت اسلامی کے میئر کا راستہ روکنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں پورے سندھ میں کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن وہ کراچی کی میئر شب کے لیے اپنی سیاست کو دائو پر لگا رہی ہے جس سے اسے ذلت ورسوائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر قوتوں کو بھی اس نازک موقع پر ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اسے اس کھیل میں پارٹی بننے سے مکمل طور پر اجتناب برتنا چاہیے ورنہ اس سے وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ملک میں چند ماہ کے بعد ہی قومی وصوبائی انتخابات متوقع ہیں اور ایسے میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے بڑھتے قدم بڑے بڑوں کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے۔ کراچی کے عوام نے کبھی بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے من پسند حلقہ بندیوں کے ذریعے کراچی کا میئر لانے کا منصوبہ تشکیل دیا لیکن اسے ناکامی حاصل ہوئی اور پیپلز پارٹی کا میئر شب کی خواہش اور مطالبہ کسی چھوٹے اور معصوم بچے کی جانب سے ’’کھیلن کو چاند مانگے‘‘ کے مصداق ہے جو کسی صورت میں پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسٹیبلشمنٹ یا دیگر قوتوں نے اپنے مفادات کے لیے زبردستی پیپلز پارٹی کا میئر لانے کی کوشش کی تو ملک بھر میں اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اوراس سے ملک کو بھی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔