کیا اس سال الیکشن ہو جائیں گے؟

732

اس سال 13اگست کو موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہو رہی ہے 8اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے پہلے ہی الیکشن کی تاریخ دی ہوئی ہے عمران خان جلد سے جلد انتخابات کرانے کے چکر میں اپنے گھر کی دیواریں توڑتے چلے گئے اگر وہ صبر سے کام لیتے اور قومی اسمبلی میں موجود رہتے تو موجودہ حکومت کے راستے میں مضبوط دیوار ثابت ہوتے کہتے ہیں صبر ایک ایسی سواری ہے جو سوار کو گرنے نہیں دیتی۔۔۔ نہ کسی کی نظروں میں نہ کسی کے قدموں میں۔ کل میں ایک ٹاک شو میں سن رہا تھا کہ عمران خان نے اپنے کسی قریبی ساتھی سے اپنی سابقہ غلطیوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ آج وہ جن آزمائشوں کا شکار ہیں ان کا سبب وہ خود ہیں۔ ہمارے پی ڈی ایم کے رہنما بھی صاف ستھری سیاست کے قائل نہیں ہیں کہ جب انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ آپ عمران خان سے یہ کہتے تھے کہ اگر ملک میں قبل از وقت انتخاب کرانا چاہتے ہیں تو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دیں پھر ہم مجبور ہو جائیں گے کہ قومی اسمبلی توڑ کر قبل از وقت انتخاب کا اعلان کردیں۔ چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔ جیسے ہی اسمبلیاں ٹوٹیں پی ڈی ایم کے رہنما اپنے وعدوں سے منحرف ہوگئے۔ پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ میں نے چھے سات مرتبہ خان صاحب سے ون ٹو ون ملاقات میں کہا تھا کہ آپ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ نہ کریں اس سے ہم سب مشکل میں پڑجائیں گے وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جیسے ہی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان ہوا عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت وقت پر انتخاب کرانے پر سنجیدہ ہے اس میں بھی ہمیں پی ڈی ایم کے رہنمائوں کے دو چہرے نظر آتے ہیں ایک سے وہ یہ کہتے ہیں کہ انتخاب اپنے آئینی وقت پر ہوں گے اور دوسرے چہرے کی زبان سے یہ کہتے ہیں کہ کوئی اقتصادی ایمرجنسی کی وجہ سے آئین میں دی ہوئی گنجائش کے مطابق انتخاب کو ایک سال کے بڑھایا بھی جا سکتا ہے سب سے پہلے ہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی بات کریں گے۔ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب مولانا یہ نہ کہتے ہوں کہ یہ جعلی اسمبلیاں ہیں انہیں توڑ کر نئے سرے سے شفاف انتخابات کرائے جائیں بلکہ اس کے لیے انہوں نے ایک ہفتے کا دھرنا بھی دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں انہوں یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے کس کے کہنے پر یہ دھرنا ختم کیا تھا بہرحال جب عمران خان کے خلاف اسی جعلی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو مولانا اس میں پیش پیش تھے اور پھر جب عمران خان کے خلاف تحریک کامیاب ہوگئی تو مولانا نے حصہ بقدر جثہ سے بڑھ کر نئی حکومت میں اپنا حصہ وصول کیا بھائی کو کے پی کا گورنر بنوایا بیٹے کو وزیر بنوایا ایک کسی کے مضمون میں پڑھ رہا تھا کہ اس بیٹے وزیر نے سرکاری خرچ پر اب تک دس عمرے کیے ہیں بہرحال مولانا فضل الرحمن کی شدید خواہش ہے کہ اسی جعلی اسمبلی کی ایک سال مدت اور بڑھادی جائے۔ اسی لیے اب وہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کے معاملے کو ملک کی اقتصادیات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف قرضوں کی قسط دینے پر خاموش ہے ان کو بغیر آئی ایم ایف کے بجٹ بنانا پڑے گا۔
مولانا فضل الرحمن کے بعد پی ڈی ایم کے ایک اور اہم لیڈر آصف زرداری ہیں جن کا آج بیان شائع ہوا ہے کہ دو ماہ میں الیکشن نہیں کرا سکتے یہ تب ہی ہوں گے جب میں کرائوں گا ان کا کہنا تھا کہ جیل میں معیشت پر کئی کتابیں پڑھ رکھی ہیں جب میری حکومت یعنی بلاول زرداری وزیر اعظم بنیں گے تو زر مبادلہ کے ذخائر 100ارب ڈالر تک پہنچا دوں گا وہ لاہور میں ٹکٹ ہولڈرز کے ایک اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت میں اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ فائدے میں پیپلز پارٹی رہی ہے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمن سب سے زیادہ فائدے میں ہیں بہرحال موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی کا سارا ملبہ ن لیگ کو برداشت کرنا پررہا ہے بلکہ شہباز شریف سب سے زیادہ دبائو میں ہیں معروف قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ پاور فل نواز شریف ہیں ان کی مرضی سے فیصلے ہو رہے ہیں آصف زرداری کی سیاست کامیاب ہے وہ کمال کے سیاستدان ہیں جب چاہیں انگلی کے اشارے سے شہباز شریف کو بلا لیتے ہیں ایک اور بڑے پتے کی بات انہوں نے کی کہ لاہور پولیس نے 9مئی کے واقعات کی مانیٹرنگ لائن تو جاری کی ہے لیکن وہ خود کہاں تھی یہ مانیٹرنگ لائن اس کے گلے پڑجائے گی۔
الیکشن کے معاملے میں ن لیگ کا نقطہ ٔ نظر بھی واضح نہیں ہے اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرے گی اس کے فوائد و نقصانات سب سے زیادہ اسی کے دامن میں آئیں گے اگر وہ آئینی مدت کے اندر انتخاب کا اعلان کرتے ہیں تو سیاسی حلقوں میں اس کا خیر مقدم کیا جائے گا لیکن اس الیکشن میں اچھی کارکردگی کا انحصار اس بجٹ پر ہوگا جو وہ پیش کرنے جارہی ہے اس بجٹ کے بارے میں ن لیگ کا کہنا ہے کہ یہ غریبوں کا بجٹ ہوگا اس میں سرکاری ملازمین کی 50فی صد تنخواہیں بڑھانے کا عندیہ ظاہر کیا جارہا ہے مارکیٹ میں اس کے اثرات کیا پڑیں گے کیا پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرسکے گا بہر حال فی الحال تو یہ خوش فہمیوں کا بجٹ ہے مہنگائی نے عوام کے آنسو خشک کردیے اور اب تو چیخیں بھی نہیں نکل پارہی ہیں ن لیگ کو یہی خوف کھائے جارہا ہے کہ بروقت انتخاب میں لینے کے دینے نہ پڑجائیں اس لیے ان کے یہاں بھی ایک سوچ یہ پروان چڑھ رہی ہے کہ اگر انہیں ایک سال کا وقت مل جائے تو وہ آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاملات کچھ بہتر کرلیںاور ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنالیں ڈالر نیچے آجائے روپیہ مضبوط ہو جائے اور زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں دونوں طرح کی صورتحال میں اچھی اور خوشگوار توقعات بھی ہیں اور خوفناک خطرات بھی ہیں دونوں صورتوں میں ن لیگ کی سیاسی پوزیشن اسٹیک پر لگی ہوئی ہے دیکھیے الیکشن کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ عمران خان تو اب کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے پھر اگلے چند ماہ میں چیف جسٹس بھی نئے آنے والے ہیں یہ تمام تبدیلیاں بھی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔