قومی اقتصادی جائزہ… حکومتی ناکامیوں کا مرقع

520

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مالی سال 2022-23ء کا قومی اقتصادی جائزہ قوم کے سامنے پیش کر دیا ہے جس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ گزشتہ سال بھر کے دوران بار بار بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود وفاقی حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اقتصادی جائزہ کے مطابق ملک کی معاشی ترقی، یہاں کے بسنے والوں کی فی کس آمدنی، برآمدات، ترسیلات زر، براہ راست غیر ملکی سرمایا کاری اور دیگر بہت سے شعبوں میں کمی ہوئی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کسی شعبہ میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، قومی خزانے پر قرضوں کے بوجھ ، غربت اور مہنگائی میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 0.29 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال میں 6.1 فیصد تھی۔ زرعی شعبہ کی شرح نمو 1.55 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 4.27 فیصد تھی۔ صنعت کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 6.83 فیصد تھی۔ معیشت کے حجم میں 27.1 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 84658 ارب روپے رہا جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصہ کے دوران 66624 ارب روپے تھا۔ فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ہزار 765 ڈالر تھی یوں اس میں 11.2 فیصد کی کمی ہوئی۔ حکومت کے اپنے جاری کردہ ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ حکومت اپنے ہی طے کردہ معاشی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہی ہے مگر وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈارنے اس صورت حال پر کسی شرمندگی یا پریشانی کا اظہار کرنے کے بجائے عجیب و غریب دعوے کئے ہیں حالانکہ ان کے خزانے کا قلم دان سنبھالنے سے پہلے کے اعداد وشمار بھی ان کے پیش کردہ رواں مالی سال کے اقتصادی جائزہ میں شامل ہیںاور ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت سے قبل ملک کے معاشی اعشاریے آج کی نسبت بہت بہتر تھے اور ملک معاشی لحاظ سے آج کے مقابلے میں خاصی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا حالانکہ پچھلے چند سال میں کرونا کی عالمی وباء نے بھی دنیا بھر کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ مگر ان حقاق کے باوجود جناب اسحق ڈار کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر موجودہ حکومت اقتدار نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوتا اور دیوالیہ ہو جاتا، معیشت میں جو گراوٹ ہو رہی تھی وہ رک چکی ہے، درست سمت کا تعین کر دیا اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانے کی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بھاری سیاسی قیمت ادا کی، دعا ہے 9 واں اقتصادی جائزہ جلد مکمل ہو۔ اگر کارنر کیا جاتا ہے تو پلان بی موجود ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہی، جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا ۔ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں شرح نمو بالترتیب 1.55 فیصد، منفی 2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی۔ سب سے زیادہ قابل ذکر کمی صنعتی شعبے کا 2.94 فیصد سکڑائو تھا، جو کہ 7.1 فیصد ترقی کے ہدف کے مقابلے میں تھا۔ جولائی 2022ء سے مئی 2023ء تک کے 11 ماہ میں 11.5 ہدف کے مقابلے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، درآمدات مہنگی ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹ کی وجہ سے مہنگائی روکنے کا ہدف ہاتھ سے نکل گیا۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہو گئی۔ ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی۔ جولائی سے مارچ کے دوران برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں۔ اسی مدت کے دوران درآمدات 43 ارب 70 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 58 ارب 90 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 25.7 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔ تجارتی خسارہ نمایاں طور پر سکڑ کر جی ڈی پی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال 10.4 فیصد تھا۔ کرنٹ اکائونٹ بیلنس میں 74.1 فیصد بہتری آئی، جس نے جولائی تا مارچ مالی سال 2023ء کے دوران 3.4 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا جب کہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران خسارہ 13 ارب ڈالر تھا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد تک سکڑ گیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 4.7 فیصد تھا۔ تجارتی خسارے میں 29.7 فیصد کمی آئی جو درآمدی ادائیگیوں میں جولائی تا مارچ میں 41.5 ارب ڈالر تک کمی سے ہوا اور گزشتہ سال یہ ادائیگیاں 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تھیں۔
پریس کانفرنس میں ایک جانب وفاقی وزیر خزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا نواں اقتصادی جائزہ جلد مکمل نہ ہوا تو پلان بی بھی موجود ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف بھی اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے لیے تمام شرائط پوری کر لی ہیں امید ہے اسی ماہ اچھی خبریں ملیں گی خدانخواستہ کوئی گڑ بڑ ہوئی تو ہماری قوم بہت مضبوط ہے۔ جناب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی حکمت عملی ناقابل فہم ہے اگر ان کے دعوے درست ہیں اور فی الحقیقت پاکستانی معیشت اس قابل ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہم معاشی لحاظ سے بہتر طور پر زندہ رہ سکتے ہیں تو آخر آئی ایم ایف کے نخرے برداشت کرنے، اس کی سخت سے سخت شرائط پوری کرنے اور اس کے حکم پر عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈالنے کا کیا جواز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم واقعی بہت مضبوط ہے اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی بے حساب وسائل عطا فرمائے ہیں۔ بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنا عیش و آرام ترک کرنے پر تیار نہیں۔ اگر صرف بالائی طبقے کی مراعات ختم کر دی جائیں تو پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی، دوسری جانب حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ حکمران زبانی جمع خرچ اور دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عملاً ان کے پاس معاشی استحکام و ترقی کا کوئی واضح منصوبہ ہے اور نہ ہی کام کرنے کی اہلیت و صلاحیت موجود ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کی روش ترک کریں ، اپنی ناکامیوں کا الزام اپنے سے پہلے کی حکومت پر ڈالنے کے بجائے اپنی حکومت کی کوئی حقیقی عملی کا رکردگی ہے تو وہ قوم کے سامنے پیش کریں۔