تحریک استحکام پاکستان

706

تحریک استحکام پاکستان کے نام سے ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئی ہے، نو مئی کا سانحہ نہ ہوتا تو شاید یہ جماعت بھی یوں راتوں رات تشکیل نہ پاتی، مسلم لیگ، پاکستان کی خالق جماعت ہے لیکن اس کے اتنے حصے بخرے ہو چکے ہیں جن کی تعداد درجنوں میں تو ہوگی مسلم لیگ کا ہر حصہ اصلی مسلم لیگ ہونے کا دعویدار ہے، مسلم لیگ کے بطن ہی سے پیپلزپارٹی نکلی تھی، اس کی پسلی کوثر نیازی کی پروگریسو پیپلزپارٹی، حنیف رامے کی پاکستان مساوات پارٹی، مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی وجود میں آئی تھی۔ 1996 میں ملک کی اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں میں ناراض یا ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کی نظر میں نا اہل لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ سیاست میں قدم رکھنے والے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین بڑی تعداد میں اس جانب جھکتے ہوئے ملے، 2002 کے عام انتخابات میں صرف عمران خان ہی واحد شخصیت تھے جو اس پارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، عمران خان لاہور، کراچی، مانسہرہ، کوئٹہ میں بھی امیدوار تھے تاہم انہیں میاں والی سے کامیاب کرایا گیا، جی یہی لفظ حقائق کے قریب تر ہے۔ ان انتخابات کا فلسفہ تھا کہ جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے کم از کم اسے ایک نشست ضرور دی جائے، جسے اس سیاسی جماعت نے اپنی عوامی مقبولیت کے بل پر کامیابی قرار دیا۔ 2008 میں تحریک انصاف اے پی ڈی ایم کا حصہ تھی، لہٰذا اس نے انتخابات کا بائی کاٹ کیا، 2013 میں اسے پالش کرکے میدان میں اُتارا گیا تو یہ جماعت قومی اسمبلی میں تیسری بڑی پارلیمانی جماعت بنی، اور مسلسل متحرک رہی، یوں 2018 میں قومی اسمبلی میں سنگل اکثریتی پارٹی بن کر ابھری، آزاد اور اتحادیوں سے مل کر وفاق حکومت بنائی، انتخابی مہم کے دوران اور بعد میں اپنی حکومت کے پہلے سال تک اس قدر لاڈلی سیاسی جماعت رہی کہ باقاعدہ میڈیا سے کہا گیا کہ خبردار اگر ’’حقائق‘‘ بیان کیے، بس صرف ترقی دکھانی ہے، تاہم پانچ اگست2019 تک اس سیاسی جماعت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سے جو کام لیا جانا تھا لے لیا گیا۔
کورونا نہ آتا تو عدم اعتماد کی تحریک بہت پہلے آجاتی، بہر حال اپریل 2022 میں اس کی دوڑ ختم ہوئی اور پی ڈی ایم اتحاد وفاق میں دیگر اتحادیوں کے ساتھ حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوا، اقتدار سے الگ ہونے کے بعد تحریک انصاف ایک بار پھر عوام میں مقبول ہوگئی، ایسی مقبول ہوئی کہ پی ڈی ایم اتحاد کو منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی… بس پھر نو مئی آگیا، یہاں سے اس کے قدم اکھڑ گئے۔ اب نو مئی اس ملک میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جایا کرے گا، نو مئی اس کے لیے تباہی ثابت ہوا، اس کے پتے خزاں کی مانند گرنے لگے ایسی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے بطن سے ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لے لیا…
عمران خان اب بالکل تنہا ہوگئے ہیں ان کی گرفتاری کے ردعمل میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد جس تیزی سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور بڑے سیاست داں اپنی راہیں پارٹی سے جدا کررہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے درخت سے سارے پرندے اڑ گئے، اس سے الگ ہونے والا پہلے نو مئی سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے اور پھر مذمت کرتا ہے اور تین حرف بھیج کر نئی سیاسی راہ لے رہا ہے کیا کیا نام تھے، اسد عمر، فواد چودھری، شیریں مزاری، پرویز خٹک، علی زیدی، عامر کیانی، عمران اسماعیل، جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، فیاض چوہان سمیت کم و بیش دو سو پرندے اڑ چکے ہیں، ملک کی موجودہ صورتحال میں پاکستان میں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے جس کے نتائج آئندہ چند دنوں میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما عمران خان کی اے ٹی ایم مشین سرگرم ہوگئے ہیں۔ فیصلہ یہی تھا کہ جب یہ تعداد 100 تک جا پہنچے گی تب نئی جماعت کا اعلان ہوگا تاہم یہ اعلان دو سو تعداد ہونے پر کیا گیا تحریک انصاف کا علم اب عارضی طور پر شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں ہے، کب تک یہ علم ان کے ہاتھ میں رہتا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، ملک کا وہ میڈیا جسے کہا گیا تھا کہ ترقی دکھائے، اب کہا گیا کہ دشمن کا دوست بھی دشمن سمجھا جائے گا، اور فیصلہ بھی میڈیا پر ہی چھوڑ دیا گیا، ’’آزادی صحافت‘‘ کے دعویدار اب کہاں کھڑے ہیں یہ خود ہی اگر بتائیں تو بہتر ہوگا، ہمیں تو فی الحال نظر نہیں آرہے، نظر آئیں گے تو ہم قاری کو کچھ بتا پائیں گے کہ یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں؟
پی ٹی آئی میں جو آج ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے یہ پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان، واضح مثال ری پبلکن پارٹی کا قیام تھا، جو ملک میں ون یونٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے راتوں رات تخلیق کے عمل سے گزری اور اگلے روز ایک ایسی حکومت قائم ہوتے دیکھی گئی جس نے ون یونٹ کے قیام کو ممکن بنایا۔ ایوب خان نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو دو حصوں میں کنونشن لیگ اور کونسل لیگ کے نام سے تقسیم کیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ اتنی بار تقسیم ہوئی کہ شاید لیگیوں کو ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کتنی تقسیم ہوئی ہے، ضیا الحق کے مارشل لا دور میں جب محمد خان جونیجو کو متحدہ مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کے بطن سے مسلم لیگ فنکشنل نے جنم لیا اور اس کے بعد جونیجو لیگ قائم ہوئی اس کے بطن سے مسلم لیگ (ن) نے جنم لیا۔
آج ملک کی جو بھی سیاسی صورتحال ہے پرانی نسل ری پلے دیکھ رہی ہے لیکن نئی نسل الجھن کا شکار ہے۔ صاحب اختیار جان لیں کہ وقت کا جبر زبان تو خاموش کرا سکتا ہے لیکن تاریخ کی آنکھ بند ہوتی ہے اور نہ قلم رُکتا ہے اور جب تاریخ کا یہ سچ سامنے آتا ہے تو بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتا ہے۔ آج جو بھی اقتدار کے لالچ میں جھولیاں پھیلا رہے ہیں ان کا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی جھولیوں میں ہمیشہ چھید ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں جب اقتدار کے اولے برستے ہیں تو جھولی اس وقت بھر ضرور جاتی ہے لیکن جب وقت کی تپش ان کو پگھلاتی ہے تو ساری برف پانی بن کر ان چھیدوں سے بہہ جاتی ہے اور پھر جھولی خالی رہ جاتی ہے یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے لیکن تاریخ سے سبق کم ہی سیکھا جاتا ہے۔