غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ

648

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مئی میں مہنگائی کی شرح 38 فی صد رہی ہے۔ غذائی اشیاء کے حوالے سے پاکستان کے محکمہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں 100 فی صد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ مہنگائی ایک ایسا تجربہ بن چکا ہے کہ جس کی حقیقت کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔ ان حالات میں سالانہ بجٹ تیار کیا جارہا ہے، جو خوفناک مستقبل سے ڈرا رہا ہے۔ اب تو قیمتوں کے تعین کا رابطہ سالانہ بجٹ سے ختم ہو گیا ہے اور مہینے اور ہفتے کے اعتبار سے قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اس کے باوجود چونکہ حکومت پر یہ دبائو ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو دکھانے کے لیے محصولات میں اضافہ کرے، حکومت ایسا منصفانہ نظام محصولات رائج نہیں کرنا چاہتی جس سے حقیقی معنوں میں محصولات میں اضافہ ہو سکتا ہے، اس لیے اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ ملک پر ایسا نظام محصولات مسلط ہے جو دولت مند طبقے کو رعایتیں دیتا ہے اور سارا بوجھ غریب آدمی پر پڑتا ہے ماہرین معیشت کے مطابق 10 کروڑ افراد غربت کی سطح کے نیچے جا چکے ہیں۔ 50 ہزار روپے مہینہ کمانے والا فرد بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ کہاں وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائے اور جو اپنے بنیادی اخراجات پورے نہیں کر سکتا اس طبقے پر تو ٹیکسوں کا بوجھ ہے، معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ غذائی اجناس سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور مہنگائی کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات پر غور کریں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر کم از کم اجرت 40 ہزار ماہانہ کرنے کے اقدام پر توجہ دینی ہو گی، جس کا مطالبہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیاہے۔ اگر منصفانہ ٹیکس کا نظام متعارف نہیں کرایا گیا تو اس کے خوفناک اثرات سامنے آئیں گے۔