قومی اقتصادی سروے: حکومت کا قرضوں اور مہنگائی میں اضافے کا اعتراف

462
default

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اقتصادی سروے پیش کردیا، جس میں ملکی قرضوں اور مہنگائی میں اضافے کے ساتھ برآمدات، ترسیلات زر، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کے علاوہ شرح نمو کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا اعتراف کیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت میں وفاقی وزیر احسن اقبال اور دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں ہوتی رہیں، فنانسنگ کی ضروریات بھی بڑھ رہی تھیں۔ اللہ نے ہمیشہ پاکستان کی حفاظت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی گراوٹ کا سلسلہ اب رک چکا ہے اور اب ترقی کے لیے کام ہو رہا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی ن لیگ کی حکومت نے تھری ایز اسٹریٹیجی متعارف کروائی تھی اور اب بھی فائیو ایز اسٹریٹیجی پر پلان بنایا ہے۔حکومت نے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔سروے میں سماجی و اقتصادی ترقی ، زراعت، توانائی، آئی ٹی، صنعت سمیت تمام شعبے شامل ہیں، جب حکومت نے ذمے داری سنبھالی تو مشکل صورتحال تھی اگر مزید کچھ عرصہ ذمے داری نہ سنبھالتے تو خدا نخواستہ صورتحال کچھ اور ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی دور میں پہلے سال کی جی ڈی پی 1.6 اور پھر اگلے سال منفی ہوگئی تھی، جس سے بنیاد بہت نیچے چلی گئی تھی اور جی ڈی پی 6 فیصد ظاہر کی، 2013ء میں جب حکومت سنبھالی تو ملک میں دہشت گردی، بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی اور حالت خراب تھی۔تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ رواں مالی سال انتہائی چیلنجنگ تھا۔ میکرو اکنامک استحکام کی بحالی کے انڈیکیٹرز اقتصادی سروے میں شامل ہیں۔میکرو اکنامک استحکام کو بحال کرنا حکومت کا مقصد ہے۔2017ء میں پاکستان دنیا کی 20 ویں معیشت تھا جو اب 44 ویں نمبر پر ہے، جہاں 2017ء میں ملک پہنچ چکا تھا وہیں دوبارہ لے جانا چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت انکلوسیو گروتھ کے راستے پر چلنا چاہتی ہے، ٹیکس وصولیوں کا زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔مس مینجمنٹ اور پالیسی ریٹ بڑھانے کی وجہ سے قرضے میں اضافہ ہوا ہے۔اس سے کہیں زیادہ نقصان عالمی سطح پر آئی ایم ایف کے ساتھ کیے سارے وعدے توڑنے سے ہوا، اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے اعتماد کو بہت دھچکا لگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی تجارت کی گروتھ میں 5 گنا کمی ہوئی۔ سیلاب کی وجہ سے بھی بہت تباہ کاری ہوئی، سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، 5 سال کا مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت کے لیے مشکل ترین اصلاحات کرنا آسان ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت نے ایک سال میں یہ مشکل ترین اصلاحات کیں۔ اس پروگرام کی بحالی ضروری تھی کہ پاکستان کی ساکھ بحال ہو۔یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے مگر ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے پاکستان کی خاطر بہت بڑی سیاسی قربانی دی ہے۔پہلی چوائس یہ تھی کہ ڈیفالٹ کرتے اور سری لنکا بنتے اور دوسری چوائس یہ تھی کہ پیٹ کاٹتے مگر عالمی وعدے پورے کرتے۔ ہم نے تمام ادائیگیاں بروقت کیں اور اب حالات بہتر ہورہے ہیں۔ایل سیز کے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں۔مانیٹری پالیسی کو مہنگائی کم کرنے کے لیے سخت کیا، جہاں آج ہم کھڑے ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد بہتری آئی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 3.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا ہے، جولائی تا مئی میں درآمدات 72.3 ارب ڈالر سے کم ہو کر52.2 ارب ڈالر ہوگئی ہیں۔برآمدات میں 13.1 فیصد کمی ہوئی اور رواں مالی سال میں برآمدات 25 ارب ڈالر رہیں، ترسیلات زر میں کمی ہوئی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بہت مشکل فیصلے کیے، ان مشکل فیصلوں کےلیے جرات کا مظاہرہ کیا۔تاریخ شہباز شریف کو یاد رکھے گی کہ انہوں نے سیاست پر ریاست بچانے کو ترجیح دی۔ ہم نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف ساڑھے 3 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے زراعت پر فوکس کررہے ہیں ، صنعت کو جتنی سپورٹ دی جاسکتی ہے دیں گے، آئی ٹی کو سہولتیں دیں گے اور ریونیو موبلائزئشن پر فوکس کریں گے۔2025ء تک گرین انرجی پر جانے کا ہدف ہے، اس سے انرجی کی 10 سے 15 فیصد بچت ہوگی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس سال ترقیاتی بجٹ کو 1100 ارب سے بھی زیادہ کیا۔ترقیاتی بجٹ میں ملکی تاریخ میں پہلی بار 100 فیصد اضافہ کیا۔ہمیں اس سال 3 غیر مثالی حادثات کا سامنا کرنا پڑا۔ اول یہ کہ بڑے پیمانے پر درآمدات کی گئیں، دوم آخری سہ ماہی میں وزارت خزانہ نے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا اور سوم یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

احسن اقبال نے کہا کہ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا تجارتی خسارہ کسی حکومت کو نہیں ملا، اس لیے اس اقتصادی سروے کا اعداد و شمار اور اہداف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پچھلی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کو نشانہ بنایا اور ہم نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 131 فیصد اضافہ کیا۔