انصاف کی فرا ہمی: وفاقی محتسب کا ایک اور اہم قدم

1086

وفاقی محتسب شاید سرکاری اداروں میں ایک نمایاں ادارہ ہے جو ہر سال لاکھوں شہریوں کو مفت اور فوری انصاف فراہم کر رہا ہے۔ یہاں عام طور پر سرکاری اداروں کی بد انتظامی کے خلاف شکایات موصول کی جاتی ہیں اور ساٹھ دن کے اندر ان شکایات کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ سال 2022ء کے دوران ایسی ایک لاکھ 64ہزار 173 شکایات موصول ہوئیں جو وفاقی محتسب کی تاریخ کے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ موصول ہونے والی شکایات ہیں۔ اس مثالی کارکردگی کے ساتھ ساتھ وفاقی محتسب نے آئی آر ڈی کے ذریعے فریقین کے باہمی تنازعات کو ان کی رضا مندی سے حل کرنے کا جو قدم اٹھایا اسے بھی ہر ایک نے سراہا ہے۔ وفاقی محتسب کے قیام کا صدارتی حکم نمبر (I) مجریہ 1983 کا آرٹیکل 33 نہ صرف وفاقی محتسب بلکہ اس کے اسٹاف ارکان کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی معاملے کی شکایت وصول ہوئے کے بغیر بھی غیر رسمی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ موجودہ وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے گزشتہ برس وفاقی محتسب کا چارج سنبھالا تو انہوں نے دیگر کئی نئے اقدا مات کے ساتھ ساتھ تنازعات کے غیر رسمی حل کے لیے Informal Resolution of Dispute(IRD) کے نام سے بھی ایک نیا پروگرام شروع کیا جس کے تحت فریقین کے باہمی جھگڑوں کو ان کی رضا مندی سے غیر رسمی طور پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وفاقی محتسب نے مارچ 2022 میں یہ فیصلہ کیا کہ آرٹیکل 33 کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے عام پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ یہ قدم صدر پاکستان کی اس ہدایت پر اٹھایا گیا کہ وفاقی محتسب کے دائرۂ کار کو ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں تک پھیلایا جائے چنانچہ وفاقی محتسب کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک کمیٹی نے تمام پہلوں پر غور کرنے کے بعد پہلے مرحلے کے طور پر آئی آر ڈی کا ایک پائلٹ پروجیکٹ وفاقی محتسب کے ہیڈ آفس واقع اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، ملتان، بہاولپور، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم علاقائی دفاتر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ آئی آر ڈی پروگرام کے تحت وفاقی محتسب کے تفتیشی افسران کے میرٹ پر کیے گئے فیصلوں پر فریقین نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ اپریل 2022 سے مئی 2023 تک اس پروگرام کے تحت 1819 متنازع معاملات حل کیے جا چکے ہیں جب کہ 62 کیسوں پر کارروائی جاری ہے۔ ان میں ایسے تنازعات بھی شامل ہیں جو کئی برسوں سے عدالتوں میں چل رہے تھے۔ فریقین نے آئی آر ڈی کے تحت ان کے حل کے لیے رضا کارانہ طور پر عدالتوں سے اپنے کیس واپس لے لیے اور آئی آر ڈی پروگرام کے ذریعے چند دنوں یا ہفتوں میں ان کا فیصلہ ہو گیا جسے شفافیت کے باعث دونوں پارٹیوں نے قبو ل کیا۔
اب آئی آر ڈی کے اس پروگرام کا دائرہ کار آہستہ آہستہ وسیع کیا جا رہا ہے، اس پروگرام کا دائرہ کار جوں جوں پھیلتا جائے گا اس سے عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ میں بھی کمی آئے گی۔ یہاں دو تین کیسوں کا حوالہ دینا بے جا نہ ہوگا مثلاً کچھ عرصہ قبل الصفا ہائٹس F-11 اسلام آباد کے مکینوں نے آئی آر ڈی پروگرام کے تحت وفاقی محتسب کو شکایت کی تھی کہ ہائٹس میں ڈیڑھ سو کے قریب گھرانے رہائش پذیر ہیں جو ماہانہ ساڑھے سات ہزار روپے سروسز چارجز کی مد میں انتظامیہ کو ادا کرتے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے صفائی، پانی اور لفٹ وغیرہ کی سہولتیں مفقود ہیں۔ وفاقی محتسب کے رجسٹرار کے سامنے کیس کی سماعت کے دوران الصفا ہائٹس کی انتظامیہ یہ سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد فوری طور پر متحرک ہوگئی اور چند یوم میں یہ سہولتیں فراہم کر دی گئیں چنانچہ شکایت کنندگان نے وفاقی محتسب کو اپنے شکریہ کے خط میں بتایا کہ ہائٹس میں ایک نئی لفٹ لگا دی گئی ہے، ایک لفٹ کو ازسر نو چالو کر دیا گیا ہے۔ پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام بھی کافی بہتر ہو گیا ہے اور ٹوٹے ہوئے پائپوں کی جگہ نئے پائپ لگا دیے گئے ہیں۔ ایک اور کیس میں وفاقی محتسب کی مداخلت سے ریڈیو پاکستان کی سابق کنٹرولر کو صرف تین روز کے اندر پنشن مل گئی۔ واضح رہے کہ شکایت گزار نے گزشتہ سال عیدالاضحی سے صرف چھے دن قبل وفاقی محتسب سے رجوع کیا تھا، جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی) کے ڈائریکٹر جنرل سے رپورٹ طلب کی گئی۔ پی بی سی نے بھی وفاقی محتسب سیکرٹیریٹ کے خط پر فوری کارروائی کرتے ہوئے تین روز کے اندر شکایت گزار کو اس کی پنشن اور دیگر واجبات ادا کردیے جس پر شکایت کنندہ نے وفاقی محتسب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اس فیصلے سے پی بی سی کے چار ہزار سے زیادہ پنشنرز کو فائدہ ہوا ہے، جس سے ان کی عید کی خوشیاں دو چند ہوگئی ہیں۔
وفاقی محتسب میں ایک اور شکایت پر گولڈن جوبلی انشورنس کمپنی نے شکایت کنندہ کو30 لاکھ روپے کی رقم واپس کی۔ تفصیلات کے مطابق ایک خاتون شکایت گزار نے وفاقی محتسب میں درخواست دی کہ وہ 02 سال قبل حبیب بینک لمیٹڈ کی 6 F- اسلام آباد برانچ میں 30لا کھ روپے انوسٹ کرنے گئی تو اسے بینک کی ایک ملازمہ نے سبز باغ دکھا کر کہا کہ میں بینک کی انشورنس کمپنی میں آپ کی بہتر انوسٹمنٹ کروا دیتی ہوں۔ اگلے برس بینک سے رابطہ کیا اور اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو بتایا گیا کہ رولز کے مطابق آپ کی رقم سے 85فی صد کٹوتی ہو جائے گی۔ شکایت کنندہ نے وفاقی محتسب سے رجوع کیا۔ وفاقی محتسب نے یہ کیس آئی آر ڈی پروگرام کے تحت اپنے ادارے کے رجسٹرار کو بھیج دیا جنہوں نے HBL، ایف آئی اے، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ کئی سماعتیں کیں اور پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کی ریگولیٹر ی اتھارٹی ہونے کی بنیاد پر سیکورٹی ایکسچینج کمیشن پر زور دیا کہ وہ گولڈن جوبلی سے شکایت کنندہ کی رقم واپس کرائے۔ وفاقی محتسب میں اس کیس کی مسلسل پیروی کے باعث بالآخر شکایت کنندہ کو اس کی ڈوبی ہوئی 30لاکھ روپے کی خطیر رقم واپس مل گئی، جس پر اس نے وفاقی محتسب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر وفاقی محتسب سے رابطہ کیا تھا جہاں میرا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا اور مجھے میرے تیس لاکھ روپے واپس مل گئے ہیں۔
وفاقی محتسب کے علاقائی دفتر کوئٹہ میں لا تعداد درخواست گزاروں نے شکایت کی کہ ان کی زمینوں پر این ایچ اے نے سوراب سے ہوشاب تک ہائی وے بنائی لیکن ان کو کئی سال گزرنے کے باوجود معاوضہ نہیں دیا گیا۔ وفاقی محتسب کوئٹہ کے افسران نے معاملے کی چھان بین کرکے این ایچ اے کے افسران کو دفتر طلب کرکے تصفیہ کروا دیا جس کے بعد این ایچ اے نے ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کر دی ہے جب کہ باقی رقم بھی جولائی کے وسط تک ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ درخواست گزار جب وفاقی محتسب کا شکریہ ادا کر رہے تھے تو خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے بر ملا کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ بھی ہے جہاں ایک پیسہ خرچ کیے بغیر عام آدمی کو فوری انصاف مل جاتا ہے۔