عوامی مقبولیت، الیکٹیبلز اور اسٹیبلشمنٹ

668

جمہوری ممالک میں اقتدار کی تبدیلی الیکشن کے ذریعے ہوتی ہے، ابھی حال ہی ترکیہ میں دوسرے مرحلے کے انتخاب میں طیب اردوان 52فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں دو سال قبل امریکا میں جوبائیڈن بھی انتخاب جیت کر برسراقتدار آئے دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں تبدیلی اقتدار کا یہی معروف طریقہ ہے اس کے علاوہ دنیا میں جو غریب اور ترقی پزیر ممالک ہیں ان کے یہاں تبدیلی اقتدار کے کچھ اور ڈائنا مکس ہوتے ہیں ان ممالک کے اندرونی معاملات میں بڑی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں ہمارے پڑوس میں ہندوستان ہے جو بڑا ملک ہے یہاں پر جمہوری عمل مسلسل جاری و ساری رہتا ہے اور یہاں پر بھی اقتدار کی تبدیلی انتخابات کے ذریعے ہوتی ہے۔ بھار ت کا الیکشن کمیشن آزاد و خودمختار ہے اور کسی حد تک غیرجانبدار بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت کی سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم میں ہندو مسلم تعصب کو ابھار کر چلاتی ہیں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی جن کا تعلق بھارتیا جنتا پارٹی سے ہے۔ ان کو گجرات کا قصائی کا خطاب بھی اس لیے دیا گیا کہ یہ اپنے ملک میں مسلمانوں کا قتل عام کراتے ہیں۔ اور ہندو اکثریت کو اپنا ہمنوا بناتے ہیں۔ اس لیے بھارت میں انتخاب جیتنے کی تراکیب کچھ اور ہیں وہاں الیکشن کے موقع پر ہندو مسلم تعصب کے ساتھ پاکستان سے جنگ کی کیفیت بنائی جاتی ہے پچھلے انتخابات سے قبل پلوامہ کا ڈراما اس کی ایک مثال ہے۔ دوسرا پڑوسی ملک افغانستان ہے جہاں تحریک طالبان افغانستان نے ایک طویل عرصے تک امریکا کے خلاف جہاد کیا اور امریکا کو اپنے ملک سے واپس جانے پر مجبور کردیا اس لیے اس وقت تحریک طالبان افغانستان کی واحد جماعت ہے جو افغان عوام کی نمائندگی کرتی ہے اس لیے وہاں کسی الیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ایک اور پڑوسی ملک ایران ہے جہاں پابندی سے انتخابات ہوتے ہیں اور پھر ان انتخابات کے نتائج کے مطابق حکمرانوں کا تقرر ہوتا ہے۔ دس سال تک ایران عراق جنگ رہی لیکن ایران میں انتخابات وقت پر ہوتے رہے۔
ہمارے ملک میں حکومت میں آنے یا حکومت کرنے کی ترکیبیں کچھ اور ہیں ہمارے ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے یہ تینوں چیزیں ضروری ہیں جن کا ذکر مضمون کے عنوان میں کیا گیا ہے اب بحث اس بات پر ہے کہ حکومت کے حصول کے لیے کسی پارٹی یا سیاسی لیڈر کے لیے تینوں چیزوں کا حصول ضروری ہے یا کسی دو میں کام چل سکتا ہے ہم اگر اپنے ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ (اس کو ہم مقتدر قوتیں بھی کہہ سکتے ہیں) اور الیکٹیبلز نے مل کر اس ملک میں 32سال سے زائد حکومت کی ہے بلکہ صرف مقتدر قوتیں اپنے طاقت کے زور پر حکومت پر قابض ہوئیں تو ملک کے الیکٹیبلز ان کے ساتھ آگئے۔ ان دونوں عناصر کے لیے عوامی مقبولیت کا ہونا اتنا ضروری نہیں، ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ملک کے حکمران رہے بعد میں ملک کے الیکٹیبلز بھی ان کے ساتھ آگئے لیکن ان حکمرانوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں اقتدار کی کیمسٹری میں اسٹیبلشمنٹ کو ویٹو پاور کی حیثیت حاصل ہے اگر کسی سیاست دان کو عوامی مقبولیت حاصل ہو اور اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ ملے تو وہ حکومت میں نہیں آسکتا اس کی حالیہ تاریخ میں ایک واضح مثال موجود ہے کہ 2013 میں عمران خان کو بڑی زبردست عوامی مقبولیت حاصل تھی کیونکہ اکتوبر 2011 کا لاہور میں ان کا کامیاب جلسہ ہوا تھا جس پر اس وقت کی پاکستان میں امریکی سفیر مٹھائی کا ٹوکرالے کر عمران خان کو مبارکباد دینے گئی تھیں، میرے خیال میں 2018 سے زیادہ عمران خان کی مقبولیت 2013 میں تھی لیکن چونکہ ہماری مقتدر قوتیں یا بقول نواز شریف کہ خلائی مخلوق ن لیگ کے ساتھ تھی اس لیے عمران خان بے پناہ مقبولیت کے باوجود 2013 کے انتخاب میں کامیابی نہیں حاصل کرسکے اس لیے نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے اس وقت عمران خان نے کہا کہ الیکشن میں بڑے سائنٹفک انداز میں دھاندلی کی گئی ہے اور یہ تو آر او کے الیکشن ہے کہ ہر جگہ آر او نے فیصلے کیے ہے۔
2013 میں برسراقتدار آنے کے بعد نواز شریف پرویز مشرف کا ٹرائل کرنا چاہتے تھے تو ان کے خلاف عمران خان نے دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا وہ نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے نواز شریف آئین کی شق 6 کے تحت پروز مشرف کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط علامت تھے جو نہیں چاہتی تھی کہ پرویز مشرف پر کوئی مقدمہ چلے اس لیے طویل ترین دھرنے کی ایک سیریز چلائی گئی یہ عجیب بات تھی کہ اقتدار میں آتے ہی نواز شریف کی مقتدر قوتوں سے ٹھن گئی نواز شریف یہ سمجھتے رہے کہ انہیں ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے دوتہائی اکثریت ملی ہے اور کسی حد تک ان کا یہ سمجھنا ٹھیک بھی تھا یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن ان کو اپنی اکثریت کے زعم میں پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف کے ساتھ الیکٹیبلز کی ٹیم تو پہلے سے موجود تھی اس لیے نواز شریف نے بغیر کسی کی ڈکٹیشن کے اپنے انداز کی بھرپور حکومت چلائی کبھی کبھی دل چاہتا تو وہ مشاورت کرلیتے ڈان لیک کا مسئلہ بھی بڑے زور شور سے سامنے آیا بہرحال یہ لڑائی اتنا آگے بڑھی کہ مقتدر قوتوں نے اگلے الیکشن میں عمران خان کو لانے کا فیصلہ کرلیا پہلے تو ان کو پاناما کے کیس میں عدالت سے تاحیات نااہل کروادیا گیا۔ 2018 کے الیکشن میں پنجاب میں ن لیگ کی پوزیشن تمام جماعتوں سے اچھی تھی۔ چنانچہ کچھ ایسا جادو چلا کہ ٹھپے ن لیگ کے حق میں پڑتے رہے لیکن ڈبے سے ووٹ بلے کے نکلتے رہے 2018 میں عمران خان کی عوامی مقبولیت نواز شریف سے زیادہ نہیں تھی اور ملک کے الیکٹیبلز عمران خان کے ساتھ نہیں تھے عمران خان نے اپنی جارحانہ انتخابی مہم سے کامیابی حاصل کی لیکن اتنی کامیابی نہیں ملی جس
کی و ہ توقع کررہے تھے۔ لیکن ایک مرتبہ جو نظروں سے اتر گیا وہ اترگیا۔ چنانچہ تحریک انصاف میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوتے گئے اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ اب ملین ڈالر سول یہ ہے کہ عمران خان کا اب کیا ہوگا۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہمارا کوئی سیاستدان جب عوامی مقبولیت کی معراج پر ہوتا ہے تو وہ ہوائوں میں اڑنے لگتا ہے وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہر بوری کو لات مارتا چلا جاتا ہے کسی بوری میں پتھر ہوتا ہے تو وہ زخمی ہو کر گر جاتا ہے نواز شریف ایک آرمی چیف کو گھر بھیج چکے تھے دوسرے کو جب گھر بھیجنا چاہا تو پھر خود کو جانا پڑگیا۔ آج کل عمران خان بھی یہی سمجھ رہے ہیں وہ عوامی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے ہیں وہ اپنے آپ کو طیب اردوان کے برابر سمجھ رہے ہیں کہ جب طیب اردوان نے آدھی رات کو عوام سے ایک مختصر سی اپیل کہ لوگ ترک فوج کے مقابلے کے لیے گھروں سے نکل آئیں تو پھر لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، ابھی یہ بات حتمی طور پر فیصل نہیں ہوسکی کہ 9مئی کے سانحے میں اصل منصوبہ ساز کون تھے لیکن اس دن عمران خان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی اس سے زیادہ شدید ردعمل آسکتا ہے ابھی تو تحریک انصاف سے لوگ جتنی تیزی سے آئے تھے اتنی ہی تیزی سے واپس جارہے ہیں، جلد سے جلد دوبارہ وزیر اعظم بننے کے چکر میں عمران خان اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے چلے گئے اپنے ساتھیوں کے مشوروں کو بھی نہیں مانا۔ وہ اب بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں آئندہ الیکشن میں معلوم ہوجائے گا کہ کون کتنا مقبول ہے۔