نوکریوں کا جمعہ بازار

748

سندھ میں نوکریوں کی عطا کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت کا سماں ہے۔ سندھ حکومت ماہ اگست 2023ء کو اپنی معیاد اور پی پی پی اپنے اقتدار کا پندرہواں سال پورا کررہی ہے۔ یوں آگے کی جانے آگے والا، جو موجودہ ہے اس کو کھرا کرلو۔ سو ایک منڈی ملازمت برائے فروخت کی بھی سجی ہوئی ہے۔ محکمہ پوسٹ آفس میں سات گریڈ کی ملازمت کے امیدوار نے جو ٹیسٹ میں شریک ہوا بتایا کہ دلال جو کمال کے حامل ہیں وہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ نے نوکری کا ٹیسٹ دیا تھا۔ آپ نوکری کا آرڈر چاہتے ہیں تو آٹھ لاکھ روپے کا بندوبست چند دنوں میں کرکے مجھے دے دیں۔ آپ کو آرڈر مل جائے گا۔ بے روزگار کے پاس آٹھ لاکھ روپے کہاں سے آتے وہ ماحول دیکھ کر کلیجہ تھام کر رہ گیا۔ خود میرے فرزند نے ٹائون آفیسر کی سولہ گریڈ کی ملازمت کا ٹیسٹ دیا۔ ابھی رزلٹ کا انتظار ہے کہ ایک صاحب نے بتایا کہ آسرا ہی مت کرو۔ ریٹ سوا کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں یہ ملازمت بلدیہ کی اے ٹی ایم کارڈ ہولڈر بناتی ہے۔ سوا کروڑ روپے میں میرٹ بنانے سے لے کر آرڈر تک سب کام یہ رقم نمٹائے گی۔ سوا کروڑ روپے کی رقم ہی حواس باختہ کرنے کو کافی تھی، سو اُمید بہار کیونکر کرتے۔ ایک صاحب نے تو حیران کردیا وہ ایک ایجنسی کا سورس ہیں انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ سرکار مرض بڑھ گیا۔ فوج میں بھرتی کے نرخ پانچ لاکھ روپے میں طے ہوئے، ساڑھے چار لاکھ روپے ایک ریٹائرڈ فوجی نے وصول کرکے اپنی برادری کی بھرتی کروا کر سرخروئی پائی۔ اور تو اور ایک ایجنسی میں انسپکٹرز کی بھرتی کے نرخ 25 لاکھ تک جا پہنچے ہیں اور یوں امیدوار صاحب ثروت نے یہ طاقت بھی حاصل کی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو بات تو تشویش کی ہے کہ حساس اور دفاعی ادارے بھی اس آکاس بیل کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ دراصل کچھ بھرتی کا نظام بھی ایسا ہے جو شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ اداروں میں آفیسر کی بھرتی ہوئی ہے اس کا اعلان ہوتا، امیدوار ٹیسٹ دیتے ہیں تو ان سب کا رزلٹ سب امیدواروں کو پتا نہیں چلتا ہے کہ وہ الم نشرح نہیں کیا جاتا ہے، ہاں پاس ہونے والے کو بتایا جاتا ہے کہ آپس پاس ہوگئے اب میڈیکل کرائو، میڈیکل میں بھی پاس ہوگئے تو پھر روزہ ٹیسٹ مہمان بنا کر خوب ٹھوک بجا کر لیا جاتا ہے اور اس چھلنی سے اچھال کر باہر کردیا جاتا ہے۔ اب ملازمتیں اپنی اولاد، رشتے دار، برادری کے افراد کو ترجیحی دی جاتی ہے اور اس میں بھی مٹھائی کے نام پر بھاری بھرکم وصولی ہوتی ہے۔ یوں سندھ میں چند برادریوں کا سرکاری ملازمتوں میں قبضہ نظر آتا ہے۔ کچھ نمک کے برابر بطور تبرک انتہائی اعلیٰ معیار کے افراد کو قسم کھانے کی حد تک ثواب کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ ایک سے چار گریڈ کی ملازمت کی بندر بانٹ ہوتی ہے جو ووٹوں کے ٹوکن کے طور پر بااثر سیاسی وڈیروں کو کوٹے کی صورت میں دی جاتی ہے کہ وہ اپنے کمداروں کو نواز دے یا خرچہ چائے پانی کا نکال لے۔ یہ کوئی انکشاف نہیں پبلک سروس کمیشن میں بھی یہ کاروبار خوب ہوتا ہے۔ مستقبل کے معماروں کا انتخاب اپنے گھرانے کے افراد کے بعد طلب گار کو سونے میں تول کر وہ رقم وصول کرکے ملک و صوبہ کی باگ ہاتھ میں تھمادی جاتی ہے۔ یہ اسکینڈل اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر ان کے بھرتی کو وہ افسران کے بچائو میں ڈھال بن جاتے ہیں اب چونکہ سال انتخاب ہے اور ہول سیل کی بنیاد پر خرید و فروخت ملازمت کا دھندہ ہورہا ہے اور یوں انتخاب کا کرچ بھی جمع ہوگا۔ ووٹرز بھی ہم نوا ہوں گے۔ ووٹ اور نوٹ دونوں ہی تو انتخاب کی ضمانت بن گئے ہیں۔