بجٹ کی تیاری اور آئی ایم ایف

1426

پاکستان کا مالیاتی سال 30 جون کو ختم ہورہا ہے، جون کے پہلے عشرے میں وزارتِ خزانہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا پروگرام جو تقریباً 6 ارب ڈالر سے زائد کا ہے اس کی ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کی منظوری کے لیے عملے کی سطح پر معاہدے کا مسودہ بھی ابھی تک تیار ہو کر منظور نہیں ہوسکا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کا موجودہ پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہوجائے گا۔ ماہرین معیشت کا خیال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری کے بغیر پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیوں کی ذمے داریاں ادا نہیں کرسکتا۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کا نظام الاوقات بھی جاری کردیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اجلاس کے ایجنڈے پر پاکستان کے ساتھ معاہدے کا موضوع شامل نہیں ہے، گویا وفاقی بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی منظوری کا حکومتی دعویٰ عمل میں نہیں آسکا ہے۔ یہ امر اس کے باوجود سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا جارجیوا سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کی تھی، جس میں وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا بھی شامل تھیں۔ وزارتِ خزانہ نے بجٹ کی تمام تفصیلات سے آئی ایم ایف کی انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا۔ وزیراعظم نے وزارت خزانہ کی ناکامی کے بعد خود براہِ راست بھی بات کی لیکن انہیں بھی کامیابی نہیں ہوسکی اور حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کی وصولی کے بغیر بجٹ تیار کرنا اور پیش کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کے سر سے آئی ایم ایف کی شرائط کی تلوار ہٹ گئی ہے اور حکومت عوام کو خوش کرنے والے اقدامات پر مبنی بجٹ پیش کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہ ہونے کے باوجود حکومت اس کی ہدایات سے سرِ مو انحراف نہیں کرسکتی، شرائط کی سختی میں اضافہ بھی اس وجہ سے ہوا ہے کہ حکومتیں اپنے کیے ہوئے عہد کی پابندی نہیں کرتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو اپنے داخلی سیاسی بحث و مباحثے میں استعمال کرتی ہیں اور ایک دوسرے پر آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کو آئی ایم ایف کی اضافی شرائط کا سبب بیان کرتی ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے پاکستان کا معاشی بحران بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں اس کی جانب سے چند ہی شرائط ہیں، نمبر ایک محصولات اور اس کی شرح میں اضافہ کیا جائے جو قرض کی ادائیگی کی ضمانت ہیں، زرتلافی کی مد کو ختم کیا جائے جو عوام کو سہولت فراہم کرنے یا قیمتوں میں کمی کے لیے رکھی جاتی ہیں، روپے کی قیمت پر سرکاری کنٹرول ختم کیا جائے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھتی جاتی ہے۔ قرضوں اور بیرونی ادائیگی کا حجم بڑھ جاتا ہے، اسی منحوس چکر نے ادائیگیوں کے توازن کو درہم برہم کیا اور آج پاکستان اس وجہ سے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا کہ اس کے پاس بیرونی ادائیگی کے لیے ڈالر کے ذخائر موجود نہیں ہیں۔ بعض ماہرین معیشت کا خیال یہ بھی ہے کہ پاکستان عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے۔ معاشی بحران نے 25 کروڑ کی آبادی والے ملک کے 10 کروڑ افراد کو غربت کی لکیر کے نیچے پھینک دیا ہے۔ یہ دعویٰ کسی حکومت کے مخالف سیاسی مبصر کا نہیں ہے بلکہ یہ دعویٰ سابق وفاقی وزیر خزانہ معروف اور ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا ہے جو حکومت کی اقتصادی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ غوث کے شریک حیات ہیں۔ موجودہ منظرنامہ یہ بتارہا ہے کہ نئے مالیاتی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کے مالیاتی سہارے کے بغیر پیش کیا جائے گا اور اس حقیقت کے ساتھ پیش ہوگا کہ 6 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام نامکمل ختم ہوگا۔ یہ عمل آئی ایم ایف کی زنجیر سے آزادی کی خبر لے کر نہیں آرہا بلکہ خطرات کے مہیب طوفان سے خبردار کررہا ہے۔ تیزی سے بڑھتا ہوا معاشی بحران اپنے ساتھ سیاسی بحران بھی لے کر آرہا ہے۔ کیا حکومت پورے سال کا بجٹ پیش کرسکتی ہے؟ جبکہ 12 اگست کو موجودہ حکومت کی مدت ختم ہوجائے گی، 12 اکتوبر تک بھی انتخابات کرانے کے لیے نگراں حکومت کی تشکیل آئینی تقاضا ہے۔ اس پس منظر میں انتخابات کے انعقاد پر مشکوک سائے ہیں، کسی بھی سیاسی مبصر کو یقین نہیں ہے کہ اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں گے۔ پاکستان کے معاشی بحران کی وجہ سے بعض حلقوں میں اس بات کی بازگشت سنائی دیتی تھی کہ اقتصادی ہنگامی حالت نافذ کرکے ٹیکنوکریٹ کی حکومت کے قیام کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس ’’افواہ‘‘ کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا کہ ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا آئینی راستہ کہاں ہے تو اس کا جواب نہیں ملتا تھا، لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور آئینی پابندیوں کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ اس وجہ سے نہیں ہوئے کہ دستور اور آئین سے بالاتر طاقتوں کا فیصلہ تھا کہ انتخابات نہیں کرانے ہیں تو نہیں ہوئے۔ یہ بات سب کے سامنے آگئی ہے کہ پاکستان سرزمین بے آئین ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کو عدالتیں اور ’’آزاد‘‘ میڈیا اور سیاسی اور جمہوری عمل بھی نہیں روک سکتے۔ اس ماحول میں پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی حکومت کے وابستگان کے خلاف جابرانہ کریک ڈائون شروع ہوگیا ہے اور سیاسی قوتیں اس کی مزاحمت کرنے کے بجائے آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے ایک اہم سیاسی کھلاڑی اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا بیان اس دعوے کے ساتھ آیا ہے کہ میں معیشت کو 100 ارب ڈالر تک پہنچائوں گا، آئندہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب میں کرائوں گا۔ ان کے اس دعوے کو تو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا کہ ان کے پاس معیشت کی بحالی کے لیے کوئی گیدڑ سنگھی موجود ہے جس کے ذریعے وہ معیشت کو 100 ارب ڈالر تک پہنچا سکتے ہیں، لیکن ان کی اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین وہ کریں گے، اس بیان کے بعد بروقت انتخابات کے انعقاد پر شکوک بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی بجٹ کے اخراجات کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ فوج کا بڑا خرچ نہیں خواہ مخواہ اس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ آصف زرداری کے موجودہ بیان کو اس پس منظر میں دیکھا جائے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے واضح اشارہ آیا ہے کہ موجودہ حکومت کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اسے تمام ہدایات پر عمل کرنا ہے لیکن معاہدہ آئندہ حکومت ہی سے ہوگا جو طویل مدت کے لیے آئے گی۔ اس وجہ سے بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ آئی ایم ایف کو ایسی حکومت کا انتظار ہے جسے واضح عوامی مینڈیٹ حاصل ہو، لیکن اب اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ اقتصادی بحران کے نام پر غیر دستوری اور غیر آئینی حکومت مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ پارلیمان کی بالادستی کی جنگ لڑنے والی سیاسی قیادت غلامی کی دستاویز پر دستخط کرچکی ہے۔ مزاحمت کے نغمے گانے والے جابرانہ اور استبدادی طرزِ حکمرانی کے آگے سرجھکا چکے ہیں۔