…!!ہم مزار بنائیں گے

505

24 سال قبل کراچی سے اٹھائی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول کے ویٹینگ روم میں بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ جہاں اس کی چھوٹی بہن پچھلے 13 سال سے قید تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانی سیاست کا ایک درویش صفت کردار سینٹر مشتاق احمد اور امریکی وکیل کلایئو اسٹافورڈ اسمتھ بھی اس انتظار گاہ میں موجود تھے۔ خاتون قیدی کہ بڑی بہن فوزیہ صدیقی سوچ رہی تھی کہ آج 24 برس بعد میں جب چھوٹی بہن کو دیکھوں گی۔ تو کیا اس کا سامنا کر پائوں گی۔ اس کے سوالات کا جواب دے پائوں گی۔ وہ نجانے مجھ سے کیا کیا پوچھے۔ مجھے اپنے بارے کیا کچھ بتائے تو کیا میں یہ سب سن پائوں گی۔ جبکہ ہمارا نہ تو باپ ہے اور نہ بھائی۔ انہی سوچوں کے عمیق سمندر کی بے ترتیب لہروں میں اس وقت دل دہلا دینے والا ارتعاش آیا جب جیل کی سیکورٹی پہ مامور عملے نے ڈاکٹر فوزیہ کو اپنے ساتھ آنے کا کہا۔
زمین و آسمان ساکت تھے۔ جیل کی اس نیم تاریک گیلری میں صرف قدموں کی چاپ تھی۔۔۔ ٹک ٹک ٹک۔۔ مگر یہ ٹک ٹک ڈاکٹر فوزیہ کے دل و دماغ پہ ہتھوڑے برسا رہی تھی کیونکہ وہ آج اپنی چھوٹی اور لاڈلی بہن سے وطن سے ہزاروں میل دور پورے 24 برس بعد خاندان کا پہلا فرد تھیں جو چند لمحوں میں ملنے جا رہی تھیں۔ انہیں گلے لگانے۔۔۔ دبی دبی چیخوں، آہوں اور سسکیوں کے درمیان صبر و استقامت کا سبق دینے۔ نئے عزم، ہمت، جرأت اور اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونے کا پیغام لائی تھیں جو انہیں گلے لگا کے۔ بہت سا پیار کر کے کمر تھپتھپا کے دینا تھا۔۔۔ اس کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر اس کو تسلی دینی تھی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا۔
اور یوں 24 برس کے سارے ارمان اس وقت کرچی کرچی بن کر بکھر گئے جب ڈاکٹر فوزیہ کو دیوار کے اس طرف بٹھا کر انتظار کرنے کا کہا گیا اور بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر بعد اس موٹے شیشے کے دوسری طرف جو بوڑھی، لاغر، کمزور و ناتواں، لڑکھڑاتی چال کے ساتھ، ٹوٹے دانت لیے، سفید اسکارف اور جیل کا خاکی لباس زیب تن کیے عورت آئے گی تو پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی ہو گی۔ اور ہاں وہ اونچا سنتی ہے۔ آپ کو اونچا بول کر اس کو بات سمجھانا پڑے گی۔ مگر یاد رکھنا کہ تم اس کو بچوں کی تصاویر تک نہیں دکھا سکتیں کیونکہ ہم دنیا بھر کے انسانی حقوق کے وہ علمبردار ہیں جہاں یہ سب باتیں بے معنی ہوا کرتی ہیں۔ یہ سب اصول، قانون اور ضابطے ہم نے تیسری دنیا کے لیے بنا رکھے ہیں۔۔۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچا۔ جب پورے 24 برس بعد ہزاروں میل دور دنیا کے اس کونے میں قید اس مظلوم و محکوم عورت کی پہلی ملاقات آئی۔ عافیہ بنا کسی ہیجانی کیفیت کے پروقار انداز میں چلتی ہوئی آئی۔۔۔ بڑی بہن کے سامنے بیٹھی۔۔۔ اور اڑھائی گھنٹوں کی اس ملاقات میں ایک گھنٹہ اپنے اوپر گزرنے والی قیامتوں کا مختصر سا احوال بتایا۔ پھر بتایا کہ مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے۔۔۔ اس کو کیوں نہیں لایا گیا۔۔۔ اب کون اس کو بتاتا کہ جس ماں کو تو یاد کر رہی ہے وہ ماں تجھے یاد کرتے کرتے اپنے ربّ کے حضور واپس پہنچ چکی ہے۔۔۔ پھر بچوں کا پوچھا۔۔۔ کیس کا ڈسکس ہوا۔۔ اور یوں ملاقات کا وقت تمام ہوا۔ وہ پروقار انداز میں اٹھی۔ واپس مڑی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اپنی بڑی بہن جو اس سے ملنے پاکستان سے آئی تھی اس کی طرف پیٹھ کر کے اپنے مخصوص سیل میں چلی گئی۔ ایسے جیسے وہ اس ماحول کی پوری عادی ہو چکی ہو۔ جیسے اس کا دل کہہ رہا ہو کہ وہ یہاں سے کبھی بھی نہیں نکل پائے گی۔ جیسے وہ اپنی قید سے اس قدر مانوس ہو چکی ہو کہ اس کو اب آزادی سے خوف آ رہا ہو۔
قیامت کب آئے گی۔ ماسوائے ربّ کے کوئی نہیں جانتا۔ مگر یہ منظر قیامت سے کچھ کم نہ تھا۔ دنیا بھر کی کتنی آنکھیں ہیں جو اس وقت پرنم ہیں۔ کتنے لب ہیں جو دعائیہ انداز میں لرز رہے ہیں۔ کتنے ہاتھ ہیں جو بارگاہ خداوندی
میں اٹھے ہوئے ہیں۔ رابطہ بحال ہو گیا۔ جلد یا بدیر جیل یا زندگی کی یہ قید ختم ہو ہی جائے گی۔ مگر ایک روز محشر کا میدان بھی سجنا ہے اور کچھ لوگ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ بش سے مشرف تک… ایک ایک کردار وہاں کھڑا ہو گا اور ان سے ایک ایک مظلوم کا حساب ہو گا۔ باقی ہم جو ابھی تک زندہ ہیں۔ ہم مزار بنا دیں گے۔ عافیہ بی بی۔۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا جنازہ پاکستانی تاریخ کا بڑا جنازہ ہو گا۔ ہم بعد از مرگ تیرے لیے جتنا ممکن ہو سکا آواز اٹھائیں گے۔ مگر ابھی نہیں۔ کیونکہ ابھی ہم سب مریم نواز، آصفہ بھٹو اور بشریٰ بی بی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ فی الوقت ہم سیاسی انائوں کی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے محاذوں پہ مصروف ہیں۔ ابھی ہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ ہم آپ کے لیے کسی بھی فورم پہ آواز اٹھا سکیں کیونکہ ہم قوم کو بتانے میں لگے ہیں کہ مریم فرائی پان سے جیل میں کپڑے پریس کیا کرتی تھی۔ ہم سر میں خاک ڈال رہے ہیں کہ سلیمان شاہ کی بیٹی گرفتار ہو گئی ہے۔ ہمیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ کہیں بشریٰ بی بی کا تقدس پامال نہ ہو جائے۔ جب آپ سسک سسک کر مر جاو گی۔ تب ہم سب باہر نکلیں گے اور پوری قوت سے نکلیں گے۔ تب تک۔۔۔ تم جانو۔۔۔ تمہارا خاندان جانے۔۔۔ چند ایک مخلصین جانیں۔۔۔ اور تمہارا خدا جانے۔۔۔ ہم آپ کا عالی شان مزار بنائیں گے۔ اگر تمہاری باقیات کو کسی سمندر میں نہ بہا دیا گیا تو…