اسلم اقبال کا قصور

737

پنجاب پولیس کی حالیہ کارروائیاں دیکھ کر واصف علی واصف کا ایک قول یاد آتا ہے کہ ’’طاقت نفرت پیدا کرتی ہے، نفرت بغاوت پیدا کرتی ہے اور بغاوت طاقت کو اُڑا دیتی ہے‘‘۔ اگرچہ پنجاب پولیس کے ظلم و ستم پر مشتمل کہانیوں کا سلسلہ دہائیوں پر محیط ہے مگر ایک مہینے سے اس میں اتنی شدت آئی کہ اخلاقی پستیوں کی تمام حدیں پار کر دی گئیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اندازہ ایک کھلے خط سے لگایا جا سکتا ہے، یہ خط پنجاب کے سابق سینئر وزیر میاں اسلم اقبال کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
السلام علیکم!
میں کچھ حقائق سامنے لانا چاہتا ہوں، 9 مئی کے بعد سے میرے خاندان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، 7 مئی کو میری atc لاہور میں ضمانت کنفرم ہوئی تو میں اْسی دِن لاہور سے چلا گیا کیونکہ 31 مئی کو میری بیٹی کا نکاح تھا۔ اس سلسلے میں فلیٹیز ہوٹل میں بکنگ کروائی گئی۔ 9؍مئی کے افسوس ناک واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، تحقیقات کے بعد ملوث لوگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ 9؍ مئی کے بعد پولیس نے میرے گھر پر ریڈ کی تو گھر پر صرف والدہ، بیٹی اور بیٹا موجود تھے۔ پھر ایک رات 3بجے میرے گھر کے دروازے توڑ کر تین درجن افراد نے داخل ہوتے ہی بدتمیزی شروع کر دی اور کہا ’’وہ قاتل ہے کدھر ہے اْس کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ میری اہلیہ نماز تہجد پڑھ رہی تھیں جبکہ بیٹی اور بیٹا اپنے کمروں میں تھے۔ والدہ کی عمر 85 برس ہے، وہ آکسیجن پر ہیں۔ پنجاب حکومت اور پولیس کے ذمے دار افسرو! پتا ہے آپ کے محافظوں نے کیا کیا؟ میری بیٹی کے جہیز کا قیمتی سامان، 7 لاکھ روپے اور dvr لے کر چلے گئے، میری والدہ تڑپتی رہیں کہ ایسا نہ کرو مگر محافظوں نے ماں کا احترام بھی نہ کیا بلکہ بدتمیزی کی انتہا کر دی، میں یہی اْمید کر سکتا تھا کہ آپ لوگ اخلاقی پستی میں اتنا گر جائو گے، آپ کو شرم آنی چاہیے۔
میں ایسے نظام اور محافظوں کی مذمت کرتا ہوں۔ آپ کے خیال میں صدا ایسے ہی چلے گا مگر ایسا نہیں۔ رات کے بعد صبح، مشکل کے بعد آسانی اور آزمائش کے بعد صبر کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ بیشک! اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ مجبوراً مجھے بیٹی کا نکاح منسوخ کرنا پڑا کیونکہ جہیز کا سامان تو میرے پنجاب کے محافظ لوٹ کر لے گئے تھے، کوئی بات نہیں اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ فلیٹیز ہوٹل سے تاریخ کی منسوخی کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کتنے عجیب محافظ ہیں گھروں میں لوٹ مار کے لیے داخل ہوتے ہیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرکے خوش ہوتے ہیں۔ افسوس! یہ بد تمیزی صرف میرے گھر تک محدود نہ رہی بلکہ میری بہنوں کے گھروں تک پہنچ گئی حالانکہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ ذمے داروں سے متعلق بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر میرے بزرگوں نے وضع داری سکھائی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ میری دونوں بھتیجیوں کے سسرالی گھروں کے دروازے توڑ کر نہ صرف بد تمیزی کی گئی بلکہ میری بہنوں کے گھروں کی طرح یہاں بھی لوٹ مار کی گئی۔ میری ایک بھتیجی کے دیور کو مارتے ہوئے لے گئے اس کے ناک کی ہڈی بھی توڑ دی گئی۔
میرے بھائیوں میاں جاوید اقبال، اکرم اقبال، افضل اقبال اور امجد اقبال کے گھروں کے دروازے توڑ کر نہ صرف بد تمیزیاں کی گئیں بلکہ سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ میرے بھائی اکرم اقبال اور اس کے بیٹے حمزہ کو پولیس لے گئی۔ میرے پنجاب کے محافظ اب ناکوں سے پیسہ اکٹھا نہیں کرتے بلکہ گھروں پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ جوہر ٹائون میں میرے رشتہ داروں کے گھر چھاپا مار کر ان کے انگلینڈ سے آئے ہوئے بیٹے راحیل کو پولیس لے گئی۔ راحیل اپنی نوزائیدہ بچی کو دیکھنے آیا تھا، اس کو اچھرہ تھانہ میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ میرے ڈیرے پر چھاپوں کے دوران لوٹ مار کی گئی۔ پولیس میرے ملازموں کو لے گئی، انہیں بہت مارا گیا۔
اہل کار میرے بھائی جاوید اقبال کو cia ڈیفنس لے کر چلے گئے۔ ساری زندگی مجھ پر یہ بوجھ رہے گا کہ میرے بھائیوں، بہنوں اور رشتے داروں کو میری سیاست کی سزا کیوں دی جا رہی ہے۔ میں پنجاب کے محافظوں سے کہتا ہوں 9 مئی کے حوالے سے میری کوئی آڈیو، ویڈیو کال یا کلپ، کوئی میسج ہو تو سامنے لائو۔ میں تو ایک سیاسی آدمی ہوں، میرا قصور تو سیاست ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے گھروں پر چھاپوں، بد تمیزیوں اور لوٹ مار کی کہانیوں کا ایک سلسلہ بھی سامنے آئے گا، کون جواب دہ ہوگا۔ ظلم جب حد سے بڑھا تو سوچا کہ عوام اور پولیس افسران کو بتا دوں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمیں پتا نہیں تھا۔ گزشتہ سال بھی 25مئی کے واقعات کے بعد ccpo لاہور نے بہت معافیاں مانگی تھیں۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر میرے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوا تو ایف آئی آر لاہور اور پنجاب کے ذمے داران پر ہوگی۔ ظلم و ستم کی یہ تصویر دیکھ کر ذمے داروں سے یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بنائو کہ دیوار گر پڑے