کون بنے گا میئر کراچی

732

کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، دس ماہ کا عرصہ گزر گیا، لیکن اب تک بلدیاتی انتخاب کا یہ عمل مکمل نہیں ہو پایا ہے، نہ ہی اس شہر کی بلدیاتی قیادت کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر پہلی پوزیشن لی، دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف رہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی جماعت اسلامی نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی پہلے نمبر ہے، ان انتخاب میں پیپلز پارٹی نے بدترین دھاندلی کی، اور اب بھی وہ اس کوشش میں ہے کہ کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہو، الیکشن کمیشن نے کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لیے، 15 جون کی تاریخ کا اعلان کیا ہے، جس کے کاغذات نامزدگی، 9 اور 10 جون کو داخل کیے جائیں گے، ان انتخابات میں چیئرمین ضلع کونسل اور وائس چیئرمین ضلع کونسل کا بھی انتخاب ہوگا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے، سڑکوں سے کوڑا صاف ہونا شروع ہوا ہے، اور بلدیاتی صفائی کا عملہ بھی کام کرتا نظر آرہا ہے، مٹی اور کوڑا صاف ہونے سے گرد وغبار کا طوفان بھی کسی حد تک تھم گیا ہے۔
کراچی کی میئر شپ کے لیے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سب سے زیادہ فیورٹ ہیں، لیکن انہیں اس میئر شپ کے لیے بہت سے پلوں کو عبور کرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کی جانب مذاکرات کا آغاز کیا تھا، لیکن یہ مذکرات پیپلز پارٹی کی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوگئے۔ 9 مئی کے بعد صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئی، اور تحریک انصاف کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا، تو پیپلز پارٹی کے رویہ میں مزید سختی آئی اور زرداری اور بلاول بھی یہ کہنے لگے کہ کراچی میں میئر جیالہ ہوگا۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ یا تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائے، یا تحریک انصاف سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال کرتے ہوئے، میئر کے لیے ان کے ووٹ حاصل کرے۔ جس وقت پورے ملک میں ریاستی طاقت عمران خان اور تحریک انصاف کو کچلنے میں مصروف ہے، حافظ نعیم الرحمان اور لیاقت بلوچ نے عمران خان سے ملاقات کرکے سیاست میں ایک دھماکا کردیا ہے، عمران خان نے کراچی کی میئر شپ کے لیے،جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔
جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کی صورت میں دونوں کے ووٹ 192 ہوں گے، جبکہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی اتحاد کے پاس 173 ووٹ ہیں۔ جب سے حافظ نعیم الرحمن اور لیاقت بلوچ نے لاہور میں زمان پارک میں جاکر عمران خان سے ملاقات کی ہے، اور کراچی کی مئیر شپ میں عمران خان نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، پیپلز پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے، لیکن یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے، پیپلز پارٹی اتنی آسانی سے سونے چڑیا کراچی سے دستبردار نہیں ہوگی، در پردہ خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ، دھونس دھمکی کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے، مسلم لیگ ن کے کراچی کے سات منتخب چیئرمینوں نے میاں نواز شریف کو ایک درخواست دی ہے، اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے، ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن کا ہونا چاہیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے۔
جماعت اسلامی میں کچھ لوگ عمران خان سے مفاہمت اور تعاون کے خلاف ہیں، لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ سیاست میں زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جماعت اسلامی کو مین اسٹریم کی سیاست کرنے میں کہیں نہ کہیں اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالنا ہوگا۔ ورنہ موجودہ صورت حال میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ پیپلز پارٹی کراچی کی تعمیر و ترقی سے زیادہ اس کے فنڈز اور دیگر اختیارات سے دلچسپی رکھتی ہے، اس نے کراچی کے تمام ترقیاتی اداروں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار کراچی میں کروڑوں روپے دھونس دھمکی، اور ناجائز اختیارات سے روزانہ ہتھیا رہے ہیں، ناجائز تعمیرات یا نقشہ منظوری کے بغیر تعمیرات کرنے والوں کو بغیر کسی نوٹس اور پیشگی وارننگ کے ڈیمالیش کرنے والا عملہ توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے، اور پھر رشوت کی رقم لے کر انہیں مذاکرات اور مزید رقوم کے لیے بلایا جاتا ہے، پیپلز پارٹی نے بڑی حد تک میئر شپ کراچی کو اپنا حق سمجھ لیا ہے، اور اسی لیے حال ہی میں اس نے میئر کراچی کے اختیارات میں قابل قدر اضافہ کیا ہے، اس میں میئر کراچی، کے ڈی اے، ایل ڈی اے، واٹر بورڈ، اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں کا بھی سربراہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی کا میئر جیالہ ہوگا اور حقیقی کراچی والا ہوگا۔
کراچی اس وقت بری طرح تباہ حال ہے، پیپلز پارٹی نے اس شہر کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا ہے، شہر کی مرکزی سڑک ایم اے جناح روڈ، صدر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کھدائی، تعمیراتی کام کے سبب شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ گزشتہ بارشوں میں تباہ ہونے والے سڑک کی پیوند کاری اس وقت کی گئی ہے، جب جون جولائی کی بارشیں ہونے والی ہیں، ان میں انتہائی ناقص میٹریل کا استعمال کیا گیا ہے، جو پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی تعمیر نو کے لیے ایسی اہل قیادت لائی جائے، جو عوام میں اثر نفوذ رکھتی ہو، کیونکہ کراچی کے مسائل عوام کے تعاون اور ان کی شرکت کے بغیر حل نہیں ہوں گے، جماعت اسلامی کی قیادت اس بات کا ویژن بھی رکھتی ہے، اور اس کے پاس عوامی حمایت بھی موجود ہے، جس سے اس شہر کے حالات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، ورنہ پیپلز پارٹی تو پہلے بھی یہاں ایڈمنسٹریٹر بٹھا کر کام چلاتی رہی ہے، جنہوں نے کراچی کو لوٹ مار اور کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، کراچی کے بارے میں عوام سے زیادہ فیصلہ کا اختیار ان ریاستی اداروں کو حاصل ہے، جو اس شہر میں امن و امان کے نام پر گزشتہ 35 برسوں سے شراکت دار ہیں، کراچی میں بجلی پانی گیس ٹرانسپورٹ سب پر مافیاز کا قبضہ ہے، جسے ایک بااختیار اور دیانت دار قیادت ہی نکیل ڈال سکتی ہے۔