ترکیہ کی صدی کا خواب

762

عالم اسلام کے ممتاز راہنما رجب طیب اردوان ایک بار پھر ترکیہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ جس کے ساتھ ہی ان کا اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہوگیا ہے۔ طیب اردوان اس بار خاصی مشکل صورت حال کا سامنا کررہے تھے۔ عالمی قوتیں تو پہلے ہی ان پر نامہربان ہیں مگر اس بار اندرونی سیاسی مخالفین نے ایک مضبوط انتخابی اتحاد قائم کرکے ان کو ٹف ٹائم دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ ان کا مقابلہ ایک سینئر اور تجربہ کار سیاست دان قلیچ دار اوغلو سے تھا جو سابق بیوروکریٹ بھی ہیں۔ قلیچ دار اوغلو کو چھے جماعتی اتحاد نیشن الائنس نے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ قلیچ دار اوغلو کا نعرہ شام کی جنگ میں ترکیہ آنے والے پناہ گزینوں کو ملک سے نکال باہر کرنا اور اردوان کے دور میں یورپ کے ساتھ خراب ہونے والے تعلقات کو دوبار ہ معمول پر لانا تھا۔ دوسری جانب ترکیہ کے حالیہ زلزلے اور بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال نے طیب اردوان کی مشکلات کو بڑھا دیا تھا۔ یہ تاثر مل رہا تھا کہ ترک عوام اب طیب اردوان کے اقتدار سے بیزار ہو چکے ہیں اور وہ نئی قیادت چاہتے ہیں۔ یہ تاثر اس وقت زائل ہونا شروع ہوا جب طیب اردوان عوام میں نکلے تو ان کے بڑے بڑے جلسے ہونے لگے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ طیب اردوان اپنے ووٹروں اور حامیوں پر بدستور اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کر سکا مگر طیب اردوان کو اپنے قریب ترین حریف قلیچ دار اوغلو پر معمولی سی برتری حاصل رہی۔ ری پولنگ کا اعلان ہوا تو صاف لگ رہا تھا کہ طیب اردوان اپنی معمولی برتری کو بڑھا کر فیصلہ کن برتری اور فتح میں بدلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پہلے مرحلے میں ترکیہ کے ووٹر کے رجحان کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے ری پولنگ میں کسی غیر معمولی تبدیلی کا امکان بظاہر باقی نہیں رہا تھا۔ ری پولنگ میں ایسا ہی ہوا اور طیب اردوان صدارتی انتخابا کے فاتح قرار پائے اور انہوں نے اپنی فتح کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ وہ دو عشروں سے جاری اپنی سیاسی کامیابیوں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے اور اب طیب اردوان دوہزار اٹھائیس تک ترکیہ کے صدر ہوں گے۔
ترکیہ کے صدارتی انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم تھے کہ رواں برس ترک اور یورپ کے درمیان سو سالہ معاہدہ لوزان ختم ہو گیا ہے جس کے بعد ترکیہ اپنے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے سمیت بہت سی ناروا پابندیوں سے آزاد ہورہا ہے۔ یہ پابندیاں یورپی فاتحین نے اس وقت نافذ کی تھیں جب وہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور انہوں نے ترکیہ میں ایک مصنوعی نظام قائم کر لیا تھا۔ ترک ایک مفتوحہ علاقہ تھا اور فتح اور شکست کے اس کھیل میں ایک مفتوحہ علاقے کو سوسال کے لیے لوزان معاہدے کی نادیدہ پابندیوں میں جکڑ دیا گیا تھا۔ یہ ایک عبرت کا سامان بھی تھا کہ کس طرح فاتح قوم اپنے مفتوحہ علاقے اور قوم کو کچھ آزادیاں دے کر آنے والے زمانوں کے لیے پابندیوں میں جکڑے رکھتی ہے۔ اب سوسال پورے ہوچکے ہیں اور یہ معاہدہ بھی اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے۔ مغربی طاقتیں اس معاہدے کے خاتمے کے بعد ترکیہ کو ایک بڑا رول ادا کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اور یہ بات ان کے لیے سوہان ِ روح تھی۔ ان کے خیال میں طیب اردوان جیسا مرد آہن اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد کو عملی شکل دے سکتا ہے۔ اسی خوف کے باعث طیب اردوان کو متعصب مغربی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا۔ ایک بار تو ناکام بغاوت کے ذریعے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ جان سے مارنے کی بھی کوشش کی گئی تھی مگر ترک عوام نے گھروں سے باہر نکل کر اس بغاوت کو ناکام بنادیا تھا۔ طیب اردوان نے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام امریکا کی ایجنسیوں پر عائد کیا تھا۔ اس بغاوت میں بظاہر فتح اللہ گولن کے ہمدرد نیٹ ورک کا کردار تھا مگر فتح اللہ گولن مدت دراز سے امریکا میں مقیم ہیں۔ اس بغاوت کے بعد امریکا اور اردوان حکومت کے تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھی گئی تھی۔ ان انتخابات میں بھی مغرب نے جم کر اردوان مخالف کیمپ کی حمایت کی تھی مگر ترک عوام کے سامنے انہیں بادل نخواستہ سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا۔
یوں تو پاکستان اور ترکیہ کے روابط حالات کے سردوگرم سے ماورا ہیں مگر طیب اردوان کے دور میں ان تعلقات میں مزید گرم جوشی آئی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ قبرض کے مسئلے پر ترکیہ کی حمایت کی ہے اور ترکیہ نے ہمیشہ کشمیر کے موقف کی حمایت کی ہے۔ طیب اردوان نے اس تعلق کو ایک نیا موڑ اور عنوان دیا ہے وہ پاکستان کے دکھوں میں رونے اور اس کی خوشیوں میں ہنسنے میں ساتھ ہوتے ہیں۔ رجب طیب اردوان کی فتح فلسطین عوام اور کشمیریوں کے لیے خوشی اور انبساط کا باعث ہے کیونکہ اس وقت دنیا میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا سچا اور مخلص ہمدرد کوئی شخص ہے تو بلاشبہ وہ طیب اردوان ہی ہے۔
جنہوں نے دنیا کے ہر فورم پر بھارت اور اسرائیل کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ان مظلوم لوگوں کے حق میں آواز بلند کی۔ فلسطین کی حمایت فریڈم فلوٹیلا سے لیکر کشمیر میں پانچ اگست کا معاملہ ہو یا جی ٹونٹی کا سری نگر میں انعقاد طیب اردوان نے ان کی حمایت کا حق ادا کیا ہے۔ جی ٹونٹی اجلاس میں چین کے بعد او آئی سی کے جس ملک نے سری نگر جانے سے انکار کیا وہ ترکیہ ہی تھا جس کے بعد باقی مسلمان ملکوں کے لیے سری نگر جانا آسان نہیں رہا اور وہ کانفرنس کے اس حصے کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں طیب اردوان کشمیر کا ذکر کرنا نہیں بھولتے اور یہ ذکر رسمی کارروائی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور وکالت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے طیب اردوان کی فتح فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طیب اردوان کی فتح کا جشن غزہ میں دیوانہ وار اور بے ساختہ انداز میں منایا گیا۔ طیب اردوان نے اپنی جیت پر اسے ترکیہ کی صدی کا آغاز قرار دیا ہے۔ غیر فعالیت کی سوسالہ نادیدہ زنجیروں سے آزاد ہوتا ہوا ترکیہ اپنی صدی کے خواب کو تعبیر دے سکے گا ؟ اس کا فیصلہ آنے والے وقتوں میں ہوتا جائے گا۔