غذائی قلت کا خدشہ۔ سبب نااہلی ہے

1201

اقوام متحدہ کے دو اداروں نے پاکستان اور افغانستان میں شدید غذائی قلت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دونوں ادارے خوراک سے متعلق ہیں۔ ایک خوراک اور زراعت سے متعلق اور ایک عالمی خوراک پروگرام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوم برگ، پاکستان کے معاشی اور سیاسی ماہرین، آئی ایم ایف اور دیگر امریکی اور بین الاقوامی اداروں کی طرح ان اداروں نے بھی غذائی قلت کے خدشے کا سبب پاکستان کے معاشی اور سیاسی بحران کو قرار دیا ہے۔ یہی بات اول الذکر ادارے بھی کررہے ہیں۔ ایک زرعی ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے معاشی بحران اور اس کی وجہ سے غذائی قلت کے خدشات ہیں۔ یہ بات درست ہے بھی لیکن جب ہر طرف سے ایک ہی قسم کی قوالی ہورہی ہو تو اس کو ذرا غور سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے لوگ اگر غور کریں تو ان کے سامنے یہ صورتحال آجائے گی پاکستان میں سیاسی بحران کوئی نئی بات نہیں ہے۔ غلام اسحق خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنا، فاروق لغاری کا اسمبلی توڑنا، جنرل وحید کاکڑ کا استعفیٰ، جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ، جنرل باجوہ کا ملازمت میں توسیع لینا۔ ان کے اور عمران کے اختلافات کے بعد عمران حکومت کا خاتمہ اور پھر عمران اور باجوہ کی لڑائی جو اداروں کی لڑائی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ سب سیاسی بحران کا حصہ ہیں اور سیاسی بحران لا محالہ معیشت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحران تو ایک زمانے میں اس قدر شدید تھا کہ بھارتی میڈیا اور رہنما کہا کرتے تھے کہ گاندھی جی کی ایک دھوتی نہیں تبدیل ہوتی کہ پاکستانی حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ ساری باتیں بتارہی ہیں کہ ان تمام خرابیوں کے باوجود پاکستان میں خوفناک غذائی قلت کی بات کبھی نہیں کی گئی اور ایسا ہوا بھی نہیں۔ لیکن پاکستان کے بارے میں تواتر سے ڈیفالٹ ہونے، مہنگائی بڑھنے، غذائی قلت اور بیروزگاری میں اضافے کی پیشگوئی بھی کی جارہی ہے اور رپورٹس بھی کی جارہی ہیں۔ اس کے پس پشت دو چیزیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو پاکستان کے بارے میں کوئی لابی ایسی رپورٹس جاری کروارہی ہو اور دوسرے یہ کہ امریکا کے پنجوں سے نکل کر چین کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش اور فیصلے کا یہ نتیجہ ہو۔ دونوں میں سے کوئی ایک بات یا دونوں باتیں ہوں تب بھی یہ سیاسی اور معاشی بحران نہیں حکمرانوں کی نالائقی ہے۔ پاکستان میں مسلسل ایسے حکمران اقتدار میں آرہے ہیں جن کی ترجیحات میں ملک اور عوام نہیں ہیں وہ صرف اپنے اقتدار کے لیے ساری جدوجہد کرتے ہیں حالیہ سنگین تصادم بھی اقتدار کی رسہ کشی ہے۔ جہاں تک غذائی قلت کا تعلق ہے تو ابھی حکومت کے پاس بہت وقت ہے کہ اگر یہ رپورٹس درست بھی ہیں تو ستمبر تک حکومت ایسے بہت سے اقدامات کرسکتی ہے جن کی مدد سے غذائی قلت سے بچا جاسکتا ہے لیکن چونکہ حکمرانوں کی ترجیح اپنی حکومت بچانا اور اپوزیشن کی جدوجہد اسے ہٹاکر خود اقتدار حاصل کرنا ہے اس کوشش میں وہ ملک کے ایوانوں کا بھی بیڑا غرق کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ کبھی قومی اسمبلی سے پوری اپوزیشن غائب ہوجاتی ہے کبھی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر پارلیمنٹ کو لولا لنگڑا کردیا جاتا ہے۔ اور اس کو حکمت عملی کہا جاتا ہے۔ ضمنی انتخابات لڑے اور جیتے جاتے ہیں لیکن اسمبلیوں میں نہیں بیٹھتے، سیاسی بحران سے زیادہ حکومت اور اپوزیشن کی نااہلی نے ملک کو ایسے جہنم کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ دنیا بھر سے ایسی رپورٹس آرہی ہیں اور ان پر لوگ اس لیے یقین کررہے ہیں کہ انہیں کوئی مثبت کام ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ حکومت میں اگر کوئی سوجھ بوجھ ہے تو اس طریقہ واردات کا تجزیہ بھی کرے کہ ہر جانب سے سیاسی و معاشی بحران ہی کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے جس طرح کا سیاسی و معاشی بحران پاکستان میں ہے اس سے ملتا جلتا امریکا میں بھی ہے وہاں بھی وہائٹ ہائوس پر حملہ ہوا اور وہاں بھی پکڑ دھکڑ سابق صدر کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور امریکا کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی ہر دو تین ہفتے بعد سر اٹھالیتا ہے۔ جسے پارلیمنٹ قرضوں کی حد بڑھاکر دور کردیتی ہے۔ لیکن وہاں تو یہ نہیں کہا جاتا کہ امریکا میں غذائی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ وہاں حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی اپنی جگہ ہے لیکن عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں اپنے پٹھو کو آگے بڑھانے کی جنگ نے عدلیہ، فوج، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا سب کو تقسیم کردیا ہے اور ہر شعبہ دوسرے کو مطعون کررہا ہے۔ پاکستانی غذائی قلت سے گھبرانے والے نہیں لیکن انہیں اپنے لیڈروں اور حکمرانوں کے چہروں سے اترتی نقاب شرمندہ کررہی ہے جس نے قوم کو عالمی برادری میں سر اٹھاکر چلنے سے روک رکھا ہے۔