غلاموں کی بصیرت

535

علامہ اقبال نے غلط نہیں کہا تھا:

غلاموں کی بصیرت پر بھروسہ کر نہیں سکتے
زمانے میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
نظیراکبرآبادی کامشہور مصرعہ ہے،
بھوکے کو چاند میں نظر آتی ہیں روٹیاں

یہ بھوک کا نہیں‘ بھوک کے تجربے کی غلامی کا بیان ہے۔ آنکھ‘ آنکھ ہے اور چاند‘ چاند ہے‘ مگر بھوک کی غلامی نے بصارت کا یہ حال کردیا ہے کہ وہ روٹی اور چاند کی ظاہری مماثلت کی اسیر ہوکر زمین اورآسمان کے فرق کو بھول گئی ہے۔ نظیراکبر آبادی کا یہ ’’ناظر‘‘ اگر کسی قوم کا رہنما ہوتا تو ساری قوم کو چاند میں روٹیاں ہی نظر آرہی ہوتیں۔ 20 ویں صدی کی عالمگیر سیاست اور زاویۂ نگاہ اس کی مثالوں سے اٹا پڑا ہے۔

کہنے کو نسل پرستی اور قوم پرستی یورپی اقوام کی ’’عینک‘‘ تھی‘ مگر وہ بالآخر ان اقوام کی آنکھ بن کر رہ گئی۔ چنانچہ انہوں نے پوری دنیا کیا پوری کائنات کو نسلی اور قومی زاویے سے دیکھنا اور دکھانا شروع کردیا۔ اس زاویۂ نگاہ نے دنیا کو جو تباہی وبربادی دی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ کارل مارکس کا معاشی نقطہ نظر‘ فرائیڈ کا جنسی زاویۂ نگاہ‘ عقل پرستوں کی عقل پرستی غلامی کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ مگر مثالوں کے ’’اعلیٰ‘‘ ہونے سے غلامی آزادی نہیں بن جاتی۔

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور یہ ایسا معروضی یا Objective زاویۂ نگاہ تھا کہ پاکستان کے حکمران اور پاکستانی قوم اس کے زیر سایہ دنیاکی آزاد ترین قوم ہوسکتی تھی۔ لیکن ہمارے حکمران طبقے کی ذہنی ونفسیاتی غلامی نے زبان کے مسئلے سے لے کر خارجہ پالیسی تک غلاموں کی بصیرت کاشت کرڈالی۔

زبان کا مطلب کسی بھی معاشرے میں لفظوں کا انبار نہیں ہوتا۔ زبان لباس کے کسی فیشن کی طرح کوئی فیشن بھی نہیں ہے۔ زبان الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر الفاظ میں معنی بھی ہوتے ہیں۔ لفظ اور معنی میں تاثیر بھی ہوتی ہے اور تخلیق کی استعداد بھی۔ جس زبان میں یہ نہیں وہ زبان‘ زبان نہیں۔ بدقسمتی سے ہم ساٹھ سال سے انگریزی کی صورت میں ایک ایسی ہی زبان کی گرفت میں ہیں۔

انگریزی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے۔ مگر ہمارے یہاں جو انگریزی بولی اور سیکھی جاتی ہے وہ انتہائی سطحی اور Functional ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انگریزی ہمارا ایک ایسا اجتماعی احساس کمتری ہے جو ہمیشہ احساس برتری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک ہی قوم کے اندرکوئی زبان بھی ہتھیار نہیں ہوتی۔ مگر انگریزی ہمارے یہاں زبان کے بجائے ہتھیار ہے۔ اور ہتھیار بھی وہ جو صرف شکار کے کام آتاہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کے بجائے ہمارے لئے ایک گونگا پن ہے۔ اگر ہم نے انگریزی ہی کو فروغ دے لیا ہوتا تو یہ بھی بڑی بات ہوتی مگر ہماری انگریزی میں نہ تحقیق ہے‘ نہ تخلیق ہے۔گہرے معنیٰ ہیں نہ تاثیر۔ لوگ کہتے ہیں ہمارا حکمران طبقہ لبرل اور سیکولر ہے‘ وہ مذہب بالخصوص اسلام کو نہیں سمجھتا۔ لیکن مذہب تو بڑی بات ہے‘ یہ طبقہ تو زبان اور اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتا۔

دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس میں ہمیشہ بڑی طاقتوں کا وجود رہا ہے اور ان طاقتوں سے تعلقات قائم کرنا اور ان تعلقات میں ایک توازن دریافت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن تعلقات کے عدم توازن اور غلامی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تسلیم کہ پاکستان کوئی بڑی طاقت نہیں تھا لیکن متحدہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا اور وہ کوئی ایسی حقیقت نہیں تھی جسے کوئی آسانی سے نظرانداز کردے یا اہمیت نہ دے۔ ہم چاہتے تو اس حیثیت میں امریکا کے ساتھ بھی باعزت تعلقات کی راہ ہموارکرسکتے تھے۔ لیکن ہمارے ان تعلقات میں ابتدا ہی سے آقائیت اور غلامی کی نفسیات درآئی جو پھیلتے پھیلتے ہماری خارجہ پالیسی کا سرطان بن گئی۔

غلامی کا سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ آدمی کی آرزو بھی چھوٹی ہوجاتی ہے۔ کلرک ہونا کوئی بری بات نہیں۔ یہ بھی ایک کام ہے۔ کلرکی کا حلال رزق بادشاہی کے رزق حرام سے ایک کروڑ گنا بہتر ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ دراصل ان کے درمیان کوئی موازنہ ہی نہیں۔ مگر دشواری اُس وقت ہوتی ہے جب آدمی کی سوچ بھی کلرکی کرتے کرتے کلرکانہ ہوجائے۔ غلامی کوئی پیشہ نہیں ہے لیکن غلامی پیشہ بن سکتی ہے۔ یہ عمل انسان کی فکرکو بھی چھوٹا بنادیتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے میں ایک بڑا عنصر ہمیشہ ایسا رہاہے جو خود کو کبھی برطانوی پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکا چونکہ وہ خود کو اور قوم کو ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کی اصطلاحوں میں دیکھتا اور سمجھتا رہا۔ ایک آزاد قوم ان اصطلاحوں میں سوچ ہی نہیں سکتی۔ یہ اصطلاحیں برطانوی سامراج کی وضع کردہ تھیں۔ مگر انہیں ہمارے حکمرانوں نے جوں کا توں گود لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم اور حکمرانوں کے درمیان اختلاف اور امتیاز ہمیشہ طبقاتی بنیادوں پر سامنے آیا ہے۔ رائے‘ معلومات‘ علم اور تجزیے کی بنیاد پر نہیں۔ اس صورت حال نے ہماری اجتماعی آرزوئوں کو اور چھوٹا کردیا۔ اتنا چھوٹا کہ بات پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے سے شروع ہوکر اس سطح تک آگئی جس کو کوئی نام دینا بھی دشوار ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاتھوں میں دوربین تھی‘ اور ایک وقت یہ ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں خوردبین ہے‘ جو کسی تحقیقات کے لئے نہیں‘ چھوٹے چھوٹے مفادات کو دیکھنے کے کام آرہی ہے۔