قومی اثاثوں کی خیر

1326

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فرمایا ہے کہ ڈیفالٹ کی تاریخیں دینے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ پاکستان کے پاس ٹریلین ڈالر کے اثاثے ہیں۔ ملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔ ایک جانب قومی اثاثے فروخت کرکے یا رہن رکھنے کا اشارہ دے کر اسحاق دار فرمارہے ہیں کہ پاکستان خود مختار ملک ہے ڈیفالٹ نہیں ہوگا کچھ لوگوں کو شوق ہے کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہم تمام ادائیگیاں وقت پر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مل کر ملک کو مشکل سے نکالیں گے۔ انہوں نے روایتی باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے پھر متضاد بات کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑا ہے یہ کیسی ترقی کی راہ ہے جس میں بوجھ عوام پر پڑتا ہے اور بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ خود ہی کہ رہے ہیں کہ ماضی میں عوام سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ایک ہی روز میں سارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ادائیگیوں میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوگی کوشش ہے کہ تمام ادائیگیاں وقت پر کی جائیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے تاجروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تاجروں کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں گے لیکن خواہشات کی فہرست مختصر رکھی جائے۔ وزیر خزانہ کی پریشان باتیں بتارہی ہیں کہ وہ کسی معاملے میں یکسو نہیں ہیں صرف قومی اثاثے بیچنے کے معاملے میں یکسو ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب اس امر کی وضاحت تو کریں کہ ایک ٹریلین ڈالر کے کون کون سے اثاثے ہیں اور ان کو گروی رکھ کر کس طرح قرض واپس دیں گے کون کون سے اثاثے فروخت کیے جائیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ اثاثے کیا صرف مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی نے بنائے ہیں یہ تو قوم کی برسوں کی قربانیوں کا ثمر ہے اثاثوں کی بنیاد پر قرضے اتارنے اور مزید وصول کرنے کا انہیں کس نے اختیار دیا ہے یہ بات بہت عرصے سے کہی جارہی تھی کہ پاکستان کے قرضوں میں رکاوٹ ڈال کر معاشی پریشانیوں کا شکار کیا جائے گا پھر پاکستان کا ایٹمی پروگرام اصل نشانہ ہے۔ لیکن ملک کا جو حال کردیا گیا ہے ایسے میں لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ ایسے ایٹمی پروگرام کو بچاکر کیا کریں گے جس کی وجہ سے کھانے کو روٹی پینے کو پانی رہنے کو گھر نہ ملے اور بدامنی اور لاقانونیت کا ہر طرف راج ہو۔ پاکستان اسٹیل کو تو ان ہی حکمرانوں نے تباہ کردیا اس کے اربوں روپے کے اثاثوں پر ان کی نظر ہے۔ ریلوے کے اثاثوں پر نظر ہے۔ اگر ہمت ہو تو شاید یہ کنٹونمنٹ، گالف کورسز اور اشرافیہ کے اثاثوں کی بات بھی کرلیں۔ لیکن ہمارے حکمران عوام کے اثاثوں ہی پر نظر رکھتے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کی ساری گفتگو تضادات کا مجموعہ ہے وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ یہ بیانیہ جسے عوامی زبان میں بھاشن کہا جاتا ہے قوم 70کے عشرے سے سنتی آرہی ہے کبھی یہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنادیتے ہیں کبھی صنعتی ترقی کرتے ہیں اور کبھی دنیا کا مضبوط ترین ملک بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن حال یہ ہے کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ عوام مہنگائی سے دبے ہوئے ہیں کہیں جاکر چھپ جائوں۔ اسحاق ڈار ہی بتارہے ہیں کہ عوام پر دبائو ہے پھر ترقی کی راہ کہاں گم ہوگئی۔ وہ بڑی سادگی سے کہ رہے ہیں کہ ایک روز میں تمام مسائل حل نہیں ہوسکتے اور یہ کہ ماضی میں عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ ڈار صاحب ان کی پارٹی چوتھی مرتبہ حکمرانی کررہی ہے جس طرح کا اقتدار عمران خان کو ملا تھا اس سے زیادہ طاقت والا اقتدار مسلم لیگ کو ملا تھا اسے تو کوئی حزب اختلاف بھی اتنی مضبوط نہیں ملی تھی وہ لوگوں سے کیے گئے وعدے کیوں پورے نہیں کرسکتے اور کیا وہ تیس چالیس برس کو ایک روز سمجھتے ہیں ان سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ قوم سے وعدے کرنے والوں میں صرف عمران خان نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے بھی وعدے پورے نہیں کیے۔ وعدے پورے نہ کرنے کے وہ بھی ذمے دار ہیں وہ تاجروں سے کہ رہے ہیں کہ خواہشات مختصر رکھیں۔ اس کی وضاحت تو نہیں کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ تاجروں نے خواہشات نہیں مطالبات پیش کیے ہوں گے اور یہ مطالبات پیداوار کی لاگت میں کمی، صنعتوں کو آسانیوں اور قوانین کے استحکام کی بات ہوگی۔ جو تاجر و صنعتکار دو نمبری کرتے ہیں وہ ہر حال میں کریں گے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے کہ کون سی صنعت ملک کے مفاد میں ہے۔ حکومتوں نے پاکستان اسٹیل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اگر صرف یہ ادارہ اس وقت پیداوار کررہا ہوتا تو سی پیک کا سارا مال پاکستان اسٹیل تیار کرتی اسی طرح پی آئی اے اور قومی جہاز راں کمپنی کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا ہے۔ یہ حکمران تو اثاثوں کو تباہ کرتے ہیں پھر بیج کھاتے ہیں پوری پارلیمنٹ میں تینوں بڑی جماعتیں ایک ہی ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ انہیں اس ایجنڈے کی راہ میں ایک دوسرے کا تعاون حاصل رہتا ہے عوام کے خلاف ہر فیصلے میں یہ سب متفق رہے ہیں جتنے بھی اعتراضات ہوئے ہیں جو بھی بہتری کے آثار ہیں وہ ایک رکنی پارٹی جماعت اسلامی کی وجہ سے ہے۔ ٹرانس جینڈر بل ہو، سودی معیشت ہو، قومی مفاہمت ہو یا سیکورٹی کا معاملہ ہر معاملے میں رہنمائی جماعت اسلامی ہی سے ملتی ہے۔ اسحاق ڈار اور حکومت کو نہ روکا گیا تو یہ ایک ایک کرکے قومی اثاثے فروخت کردیں گے یا رہن رکھ دیں گے۔