اس درد کو محسوس کریں

731

اہل دل ذرا اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر صرف چند لمحوں کے لیے تصور کریں، آپ کی ایک قابل رشک، سمجھدار، بے گناہ، جوان بہن بیس سال سے کفار کی قید میں ہے۔ اس دوران اس پر ہر قسم کا ظلم و ستم برپا کیا گیا ہو، کسی کو اس کی کوئی خبر نہ ہو، اس کی شکل تک نہ دیکھنے دی گئی ہو، اس کے معصوم بچے تمہارے سامنے ماں کی جدائی میں روتے بلکتے ہوں، آپ سے سوال کرتے ہوں کہ ہماری ماں کب ہم سے ملے گی اور آپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو، اس کی ماں کی آنکھیں اس کے آنے کے انتظار میں جدائی کی کیفیت میں ہی اگلا جہان سدھار گئی ہو۔ تمہارے کثرت سے ترلے منتوں، رونے رُلانے، اصرار، جدوجہد کے باوجود اس کی رہائی کے لیے یا اس سے ملاقات کے لیے حکومت وقت چپ سادھ لے، اس کو سانپ سونگھ جائے اور وہ ٹس سے مس نہ ہو پھر کسی اللہ والے کی ذاتی کوششوں سے یہ بیس سال کی جدائی ملاقات میں تبدیل ہو۔ جب اس مظلوم، کفار کے ظلم و ستم کا شکار بہن کا نقاہت زدہ وجود آنکھوں کے سامنے آجائے تو اس وقت ایک بڑی بہن کا اپنی چھوٹی بہن کے لیے کیا دل چاہے گا، یہی کہ دوڑ کر اسے اپنے گلے سے لگا لے، بیس سال کی جدائی کو ایک پل میں مٹا لے۔ ارے بہنوں بہنوں کے تو دکھ سکھ ہی ختم نہیں ہوتے، ان کا تو ایک دن بھی بات کیے بغیر گزارا نہیں ہوتا لیکن یہاں تو شکل ہی بیس سال بعد دیکھ رہی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھیں، بے شک گزرتے شب و روز اور غموں کے پہاڑ نے دونوں کو جوانی کی بہار سے ادھیڑ عمری کے موسم میں لا کھڑا کیا تھا لیکن ایک ہی والدین کے خون نے ایک دوسرے کو پہچاننے میں لمحہ بھی نہ لگایا ہو گا۔ وہ دونوں بہنیں بے خود ہو کر ایک دوسرے سے گلے ملنے کے لیے ایک دوسری کی طرف بڑھیں ہوں گی لیکن یہ کیا، درمیان میں موٹے شیشے کی دیوار حائل ہو گئی۔ اس ظالم دیوار نے 20 سال بعد بھی بہن کو بہن کا لمس محسوس نہ ہونے دیا۔ وہ دونوں تڑپ کر رہ گئیں ہوں گی۔ یہ ملاقات تھی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے امریکا کی ایک جیل میں جسے امریکی حکومت نے کسی نہ کردہ جرم اور محض شک کی بنا پر پرویز مشرف کے دور میں پاکستان سے اغوا کر کے پہلے بد نام ترین جیل گوانتا موبے میں رکھا۔ بعد ازاں مقدمے کا فیصلہ بھی امریکی عدالت میں رکھا گیا جہاں پر قانون بھی امریکی، جج بھی امریکی جنہوں نے اپنی مرضی کا فیصلہ دے کر عافیہ کو امریکی جیل میں 86 سال کے لیے قید کر دیا اور اب عافیہ صدیقی امریکا کے شہر فورٹ ورتھ کی جیل FMC carswell میں قید ہے۔
سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈریس میں ملبوس عافیہ صدیقی نے اپنی بہن سے اڑھائی گھنٹے ملاقات کی مگر شیشے کے پار رہ کر۔ اس نے جیل میں روز اپنے اوپر ہونے والی اذیت کی تفصیل سنائی۔ اس کے سامنے والے دانت جیل میں حملے سے ضائع ہو چکے ہیں۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ان کی قوت سماعت بھی متاثر ہو چکی ہے اس لیے سننے میں بھی مشکل پیش آرہی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ ’’مجھے امی اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں‘‘۔ وہ اپنی ماں کی وفات سے لاعلم ہے۔ ہائے اللہ!… کتنی کربناک صورتحال ہے یہ۔ مغرب، خاص کر امریکا جو ہمارے گھر میں گھس کر انصاف کا علم بردار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا دنیا کو اس کا یہ گھناؤنا چہرہ نظر نہیں آتا؟ یہاں ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھانے سے منع کردیا۔ دل چیخ اٹھتا ہے اس تصور ہی سے۔ کیا ایک ماں کا دل نہ چاہا ہو گا؟ کہ وہ دیکھے تو سہی، اس کے بچے کتنے بڑے ہوگئے ہیں۔ اب وہ کیسے لگتے ہوں گے۔ اس کی آنکھوں میں تو وہ ننھے منے بچوں ہی کا تصور ہوگا۔ ماں تو ایسی ہستی ہوتی ہے جس کے لیے بچوں کو اپنے سے ایک دن بھی دور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ تھوڑی دیر بھی بچوں سے دور ہوتی ہے تو جس کے حوالے بچے کرتی ہے اسے فکر مندی سے بیسوں ہدایات بھی دیتی ہے۔ اللہ!… ایک ماں کی ممتا سے اس سے بڑھ کر اور کیا ستم برپا ہوگا۔
انصاف کے نام نہاد جھوٹے علم بردار امریکا کے بارے میں یہ باتیں بھی آپ لوگوں کو یاد ہوں گی جب پاکستان میں مختاراں مائی کا واقعہ ہوا۔ پتا نہیں اس عورت کے ساتھ ریپ ہوا یا نہیں کیونکہ بعد میں اس کیس کا جھوٹا ہونے کی باتیں بھی سنیں تھیں لیکن یہ مکار امریکا اس عورت کا اتنا ہمدرد بنا حتیٰ کہ اس عورت کے باپ سے بھی زیادہ۔ اپنے خرچے پر اپنے ملک میں بلوایا، انعام و اکرام سے نوازا اور اس عورت کے ذریعے دنیا میں پاکستان کو ریپیئسٹ ملک ثابت کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملالہ یوسف زئی اور آسیہ مسیح کے ساتھ کی گئی ہمدردی بھی سب کے سامنے ہے۔ امریکا بہادر، پاکستانی عورتوں کا اتنا ہمدرد ہے کہ شرمین عبید چنائے کو نوبل انعام سے نواز دیا۔ اس کا کارنامہ یہ تھا، اس نے ایک ڈاکومنٹری فلم بنا کر دنیا کو دکھایا تھا کہ پاکستانی مرد اپنی عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینک دیتے ہیں اور وہاں عورتیں ان کے ظلم و ستم کا شکار ہوکر سسک سسک کر مر جاتیں ہیں۔
پاکستانیو! ڈاکٹر عافیہ صدیقی مظلوم ہے، بے گناہ قیدی ہے، وہ پاکستان کا سرمایہ ہے، وہ پاکستان کی ایک قابل ترین ڈاکٹر ہے، اس کے ساتھ ہونے والے ظلم اور اس کے گھرانے پر ٹوٹنے والے غم کے تصور سے ہی کلیجہ پھٹتا ہے۔ ان کے لیے آواز اٹھانے اور ان کی رہائی کے لیے جدوجہد کی ذمے داری صرف ڈاکٹر مشتاق کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمے داری ہے۔ قیامت کے روز ہم سب سے اس کی پوچھ ہوگی۔ امام ابن تیمیہ نے فرمایا تھا کہ ’’امت مسلمہ کی ایک بیٹی بھی کفار کی قید میں چلی جائے تو پوری امت مسلمہ پر جہاد فرض ہو جاتا ہے‘‘۔ اس صورت حال میں کیا ہم پر یہ جہاد فرض نہیں یا پھر ہم امت مسلمہ ہی نہیں رہے؟۔ قلم کار اپنے قلم کا استعمال کریں، مبلغ اپنی زبان کا، سوشل میڈیا سب کے ہاتھ میں ہے، اس بار سب اپنی بھر پور کوشش کریں اور حکمرانوں کو مجبور کر دیں کہ وہ حکومتی سطح پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فوری رہائی کا انتظام کریں۔