Absolutely Not

850

پاکستان کی سیاست گرگٹ کی طرح کب اور کس وقت اپنا رنگ ڈنگ بدل دے گی کوئی بھی یقین سے دعویٰ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی سیاست کا دھڑم تختہ جہاں مارشل لا سے ہوتا آیا ہے وہاں ہوس اقتدار کی ماری کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے بھی حکومت گرانے میں اہم کردار نبھایا ہے۔ اقتدار کی اس خوفناک کشمکش میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ اس وقت مملکت پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں جو چاروں صوبوں میں بیک وقت مقبولِ عام ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کے مختارِ کُل عمران خان سیاسی حلیفوں کی مہربانیوں کے طفیل عرصہ دراز کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو اقتد ار کی مسند سے محروم کرنے میں کامیاب تو ہوئے تھے لیکن خود تخت سنگھاسن کو چار سال بھی نہ سنبھال سکے۔ Absolutely Not کا نعرہ بلند کرنے والے خان صاحب اپنی حکومت کے مختصر دورانیے میں مطلق العنان کا قائدہ اپنا کر خود کو ہی Absolutely Not کے قفس میں مقید کرتے رہے۔
خان صاحب نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی سیاسی مخالفین کو نشانے پر رکھا ان پر الزامات کی بھر مار کردی، مقدمات چلائے، چھوڑوں گا نہیں کی رٹ لگائے خان صاحب بجائے مخاصمت اور عداوت کے اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے اہداف پر توجہ مبذول کرتے اور گڈ گورننس قائم کرکے عوام کو ریلیف پہنچاتے تو سیاسی حریفوں کا پتّا بآسانی صاف کرنے میں کامیاب ہوجاتے لیکن غلط ہدف کا چناؤ اور اپوزیشن کا آناً فاناً قلع قمع کرنے کی جستجو میں خان صاحب پاکستان کی سیاسی بساط پر موجود تجربہ یافتہ کھلاڑیوں میں ناپسندیدہ شخصیت بن کر Absolutely Not قرار پائے جس کا خمیازہ بہرحال انہیں ہی بھگتنا پڑا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستانی عوام عمران خان کے وعدوں اور دعوؤں، احتساب، کرپشن کا خاتمہ، قرضوں میں کمی، اداروں کی اصلاحات، وزیر اعظم ہائوس میں یونیورسٹی کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھروں کے منصوبوں اور تعمیر و ترقی کے آغاز کے منتظر تھے لیکن اس پر عملدرآمد کرنے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں الجھ گئے، کبھی ڈان لیکس اور کبھی اسلام آباد سے لندن تک کی بے معنی طلاتم خیزی سے اپوزیشن پر مقدمات کا سلسلہ اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں یوں عوام دوست منصوبے تنازعات اور سیاسی دنگل کے نظر ہوتے گئے۔ پونے چار سال کے اقتدار میں خان صاحب پہاڑ ہی کھودتے رہے لیکن چوہے کو بھی برآمد نہ کرسکے البتہ ناتجربہ کاری کے بدولت سیاسی درجہ حرارت میں تسلسل سے اضافہ کرتے رہے اور فن سیاست کے داؤ پیچ سے واقف کار اپوزیشن کو نہ صرف تنقید بلکہ خفیہ تدابیر کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ خان صاحب بغیر مشاورت اور ماہرانہ رائے کے عامرانہ فیصلے صادر کرتے گئے اور پھر بار بار یو ٹرن سے اپنی ہی ساکھ کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچاتے رہے۔ ایوان کی طاقت سے بیگانہ خان صاحب نے اپنی ہی کابینہ کو پیہم نظر انداز کرکے بغاوت پر مجبور کیا نتیجتاً جس کابینہ نے خان صاحب کو اعتماد کا ووٹ دیکر وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے اہل بنادیا تھا اسی کابینہ کے ارکان نے عدم اعتماد سے تخت اقتدار سے محروم کردیا ہے یوں آپ مملکت پاکستان کے عدم اعتماد سے برطرف کردہ پہلے وزیراعظم کا خطاب سمیٹ کے چل دیے کیونکہ آپ اتحادیوں کے سہارے چلانے والی حکومتی تجربات سے ناآشنا تھے اتحادیوں کو خاطرخواہ مقام دینے کے بجائے خود ساختہ فیصلوں کے بدولت آپ اپنی ہی کابینہ کے لیے Absolutely Not بن چکے تھے۔
خان صاحب اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اپنی کمزوریاں بیان کرتے رہے، سر عام ان کی نشاندہی کرکے اپنے پیروں پر مسلسل کلہاڑی چلاتے رہے اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور کمزور اکثریت کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمزور کو کمپرومائز کرنا پڑتا ہے لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود آپ کو کمپرومائز کرنے کا موقع تک میسر نہ آسکا۔ ایسا کیونکر ہوا؟ اس لیے کہ آپ کی بے محل اور فروعی مشاغل کے ساتھ ساتھ بیجا مداخلت نے تھینک ٹینک کو سر جوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ پر اعتماد اور اعتبار کرکے وہ جس فاش غلطی کا ارتکاب کرچکے تھے کے تدارک میں سرگرداں ہوئے کیونکہ پیشہ ورانہ حلقوں میں آپ کو Absolutely Not کی فہرست میں داخل کردیا گیا تھا۔
اقتدار چلے جانے کے بعد بھی خان صاحب کو نادر موقع ہاتھ آیا تھا پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے لیکن آپ اپنی حکومت کو چلتا کرنے کا ملبہ سائفر کا ڈھونگ رچا کر حکومتی اداروں کو مورد الزام ٹھیراتے گئے اس کو امریکی سازش قرار دیکر عوام کو بہکاتے رہے جب وہاں سے دال نہ گلی تو پاکستانی اداروں کی جانب رخ موڑ کر انہیں ہدف تنقید بنانا شروع کیا۔ میڈیا، الیکشن کمیشن، شخصیات اور اداروں کے خلاف سازشوں کے الزامات میں حدود سے تجاوز کرگئے جن کی بدولت آپ کو اقتدار حاصل ہوا تھا ان پر بھی الزامات کی ژالہ باری کرکے مکمل بداعتمادی سمیٹ کر Absolutely Not کی کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ کر گئے۔
اس نوعیت کے بہت سارے واقعات اور عوامل سے خان صاحب کا گراف تسلسل سے گرتا گیا اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے نالاں تھے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ خود کو کوستے دکھائی دیے حالات کے مارے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میرا بس چلے تو اپنے اس انگوٹھے کو کاٹ کر پھینک دوں جو پی ٹی آئی کے نشان بلے پر لگایا تھا۔ خان صاحب نوشتہ دیوار پڑھنے کے بجائے خیالی خوابوں میں محو استراحت رہے کہ وہ عوام میں مقبول ہیں اور عوام ان کی آواز پر لبیک کہنے کو مستعد ہیں لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا لوگ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے تھے اور متنفر ہوچکے تھے۔ عوام طاقت کا سرچشمہ کہلاتا ہے یہ عوام پی ٹی آئی کی ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ بداخلاقیوں، بدتمیزیوں اور غیر شائستہ چال و چلن کے بدولت معاشرے کی تباہی و بربادی سے خفا اور عاجز تھے پاکستانی عوام لاکھ برے سہی لیکن اسلامی ٹچ، مدینہ کی ریاست اور پیغمبر آخر الزماںؐ کے تقدس کا تمسخر جھیلنا انہیں قطعاً بھی برداشت نہیں۔ یہ وہ افعال و اعمال تھے جن کی بنا پرخان صاحب عوامی لغت میں بھی Absolutely Not رجسٹرڈ ہوچکے تھے۔
مملکت پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو ناکام حکومتی پالیسی، ناقص کارکردگی اور سیاسی مخالفت، عدالتی معرکہ آرائیوں، اسلامی ٹچ اور بیرونی سازشوں کا ڈھونگ شاید گوارا ہوتا لیکن اسٹیبلشمنٹ سے عملی بدخواہی، مخاصمت اور ریاستی اداروں پر پے در پے الزامات سے خان صاحب پر Absolutely Not کا پیراہن زیب تن ہوچکا تھا۔ زعم باطل میں مبتلا خان صاحب نے 9 مئی کو ریاست پر حملہ ور ہوکر Absolutely Not کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جس کا ثمر آج کے دن دنیا کے سامنے موجود ہے۔ کل عمران خان کے لیے زمین و آسمان ایک کرنے والے وزراء خس و خاشاک ثابت ہوئے۔ جب چڑیا کھیت چک چکی ہے تو خان صاحب کو مذاکرات کی یاد ستانے لگی لیکن دیوار میں چنوائی گئی اپوزیشن جماعتیں کوئی روم دینے کو تیار نہیں کیونکہ آپ ریاست کے لیے خطرہ قرار دیے جاچکے ہیں اس لیے ہر خاص و عام آپ سے بدظن ہوکر Absolutely Not کی مہر تصدیق ثبت کر چکا ہے۔
مائنس عمران خان کی بازگشت بھی زوروں پر ہے۔ موجودہ سیاسی کھیل میں سیاسی یتیم شاہ محمود قریشی اور چودھری پرویز الٰہی کا کردار دیکھنے کے قابل ہوگا پرویز الٰہی ن لیگ اور شاہ محمود پیپلز پارٹی کے لیے قابلِ قبول ہو ہی نہیں سکتے یہ دونوں حضرات خان صاحب سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھتے ہیں اور پارٹی قیادت سنبھالنے کی دوڈ میں مائنس عمران خان پر بھی کمپرومائز کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ بہرحال سیاست کے ابَرآلُود موسم میں سیاسی ہلال کمیٹی ہی سیاسی چاند کے اعلان کرنے کی مختار ہے۔ میں کالم کے ابتداء ہی میں عرض کرچکا ہوں کہ پاکستانی سیاست کا گرگٹ کب اور کس وقت رنگ بدل سکتا ہے کوئی حتمی دعویٰ نہیں کرسکتا ہے البتہ سیاسی جوتشیوں کے اعدادو شمار کے مطابق خان صاحب پاکستان کے سیاسی زائچے سے غائب ہیں چھٹی حس کے مطابق فائل کلوز اور Absolutely Not کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے۔