کیا عوامی حمایت کامیابی کی ضامن ہے

566

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دو رائے ہوسکتی ہیں یہ ایک عمومی عنوان ہے لیکن اگر اس کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری رائے یہ بنتی ہے کہ عوامی حمایت یا غیر معمولی عوامی حمایت کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پارٹی یا شخصیت کی عوامی حمایت بہت زیادہ بنتی نظر آتی ہے تو اس کی مخالف قوتیں اس کے خلاف کچھ ایسے محاذ کھول دیتی ہیں یا وہ ایسی چال چلتی ہیں جس سے غیر معمولی حمایت والی قیادت یا سیاسی جماعت کو مطلوبہ کامیابی نہیں مل پاتی۔ ہمارے ملک میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں اور بیرونی دنیا میں بھی کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں اگر گنجائش ہوئی تو ان کا بھی ذکر کردیں گے۔ پاکستان کی سب سے پہلی مثال محترمہ فاطمہ جناح کی ہے جنہیں 1964 کے انتخاب میں صدر جنرل محمد ایوب خان کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اپنا متفقہ امیدوار بنایا تھا۔ 1958 کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھالا اور 1956 کے دستور کو لپیٹ دیا، 1962میں اپنا دستور ملک میں نافذ کیا ایوب خان کے ان اقدامات سے پاکستانی عوام ناخوش تھے کہ انہوں نے زبر دستی اقتدار پر قبضہ کیا تھا یہ احساس ایوب خان کو بھی تھا کہ انہوں نے بندوق کی زور پر اقتدار پر قبضہ کیا ہے، اس لیے انہوں نے 1964 میں بی ڈی نظام کے تحت ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔
اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو ایوبی آمریت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اس وقت کی اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ امیدوار نامزد کردیا ہمارے وہ بزرگ جو آج حیات ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ پورے ملک میں فاطمہ جناح کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اس مقبولیت کی وجہ ایوبی آمریت سے نفرت تھی تو دوسری وجہ محترمہ فاطمہ جناح کا قائد اعظم کی بہن ہونا اس لیے کہ پاکستانی قوم کو قائد اعظم محمد علی جناح سے ایک جذباتی لگائو تو ہے میر ی عمر بھی اس وقت بارہ یا تیرہ سال تھی پوری مہم کو ہم دیکھ رہے تھے فاطمہ جناح سے لوگوں کے والہانہ لگائو کی ایک مثال یہ ہے کہ کسی نے غلطی سے علاقے کے لوگوں کو بتادیا کہ محترمہ فاطمہ جناح لالو کھیت آنے والی ہیں بس پھر کیا تھا ہر گھر سے بچے بوڑھے خواتین دیوانہ وار نکل آئے اور اس طرف جانے لگے جہاں محترمہ کے آنے کی توقع تھی لوگوں کی یہ جذباتیت دیکھ کر مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب فاطمہ جناح کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا مشرقی پاکستان کے لوگ تو دیوانہ وار محترمہ کے حق میں مہم چلارے تھے مجیب الرحمن فاطمہ جناح کی طرف سے مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی مہم کے انچارج تھے انتخابات ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کنونشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے جنہوں نے دھاندلی سے ایوب خان کی جیت میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ہمیں بھی محترمہ کے ہارجانے کا بہت افسوس ہوا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کسی لیڈر کی عوامی حمایت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں بن سکتی۔ اس انتخاب میں دھاندلی اور اوچھے ہتھکنڈوں سے ایوب خان الیکشن جیتا تو محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستانی عوام کے دلوں کو جیت لیا۔
دوسری مثال اصغر خان کی ہے کہ 1968 میں جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو اصغرخان نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا وہ جب پہلی بار کراچی آئے تو ان کا اتنا زبردست استقبال ہوا اور ان کے جلسے میں عوام کی جو ریکارڈ حاضری تھی ایسی
حاضری تو پہلے کسی جلسے میں تھی نہ بعد میں کسی جلسے میں نظر آئی، جو نادیدہ قوتیں ایوب خان کے خلاف تحریک کو قوت فراہم کررہی تھیں ان کے نزدیک اصغر خان کا اس طرح عوامی ہیرو بن جانا بھی ناقابل قبول تھا چونکہ اس عوامی دبائو سے ایوب خان گول میز کانفرنس کے ذریعے اقتدار سیاسی جماعتوں کو منتقل کرنے پر تیار ہوگئے یہ ایک بہت اچھا سیاسی عمل تھا لیکن بھٹو نے کسی اشارے پر اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کا مطالبہ کردیا اس طرح ایوب مخالف تحریک کی قیادت اصغر خان سے نکل کر بھٹو صاحب کے پاس آگئی ایوب خان نے استعفا دے دیا لیکن اقتدار وہ سیاسی جماعتوں کو دینے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو دینے پر مجبور ہوگئے۔ یحییٰ خان نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1970 میں ملک میں عام انتخاب کا اعلان کیا تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بھرپور انتخابی مہم چلارہی تھیں جماعت اسلامی نے اسی مہم کے سلسلے میں 31مئی1970کو یوم شوکت اسلام منانے کا اعلان کیا جبکہ عام انتخابات دسمبر میں ہوتا تھے جماعت اسلامی کا شوکت اسلام کا ایونٹ پورے ملک میں اتنا زبردست کامیاب ہوا کہ تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے، پھر کیا ہوا۔ وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوتا ہے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جماعت کا یہی شوکت اسلام کا ایونٹ اس کی شکست کا سبب بن گیا پہلی بات تو یہ کہ اس کی ٹائمنگ غلط تھی یہ کچھ پہلے ہوگیا کہ اسلام مخالف عناصر کو اپنی چالیںچلنے کا موقع مل گیا، سکرنڈ میں بریلوی علماء کی ملک گیر کانفرنس ہوئی اور جماعت اسلامی کے خلاف اہل ِ سنت کے علما نے جمعیت علمائے پاکستان کی بنیاد ڈالی جس نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کے رفیق سہگل اور ملک کے سرمایہ داروں نے
اس تنظیم کی مالی مدد کی۔ جماعت اسلامی کے کامیاب شو نے اگر ایک طرف سرمایہ داروں کی نیندیں اڑادی تھیں تو دوسری طرف دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایک انجانے خوف کا شکار ہو گئیں کہ ملک میں جماعت اسلامی آنے والی ہے۔ 1977 میں بھٹو کے ظالمانہ دور کے خاتمے اور بھٹو آمریت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا، نو جماعتی اتحاد کی عوامی پوزیشن پیپلز پارٹی سے زیادہ مضبوط تھی پورے ملک میں پی این اے کے بے زبردست انتخابی جلسے ہورہے تھے لیکن بھٹو صاحب نے اس انتخاب میں اگلے پچھلے دھاندلی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی جس کے ردعمل میں ان کے خلاف عظیم الشان تحریک چلی بھٹو صاحب مذاکرات کے ذریعے دوبارہ انتخاب پر راضی ہوگئے پی این اے کی سیاسی پوزیشن بہت اچھی تھی لیکن درمیان میں مارشل لا آگیا اور بھرپور عوامی تائید پی این اے کو کامیابی نہیں دلا سکی۔ 1986 میں طویل جلاوطنی کے بعد بینظیر بھٹو جب لاہور ائر پورٹ پر اتریں تو ان کا انتہائی فقید المثال استقبال ہوا، کراچی میں اصغر خان کے استقبال میں جو حاضری تھی لاہور میں بینظیر کے اسقبال کی حاضری اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی اتنی زبردست عوامی تائید کے بعد بینظیر بھٹو کو جو اقتدار ملا وہ مقتدر قوتوں سے گفت وشنید کے بعد کئی شرائط پر ملا۔ 1999 میں نواز شریف کو قومی اسمبلی کے ایوان میں دوتہائی اکثریت حاصل تھی لیکن وہ اپنی مرضی سے آرمی چیف نہیں لاسکے اور ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اس طرح دوتہائی اکثریت کی عوامی تائید ان کے کام نہ آسکی اور وہ اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔
اب آج کل عمران خان کی مقبولیت کے بڑے چرچے ہورہے ہیں کیا عمران خان کی یہ مقبولیت اور غیر معمولی عوامی تائید ان کو موجودہ آزمائش سے نکال سکے گی یا نہیں اس پر آئندہ کسی مناسب موقع پر بات کریں گے۔