امریکی جیل کی جہنم اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

1931

بالآخر 20 سال بعد امریکی جیل میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گئیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی نائن الیون کے پراسرار واقعے کے بعد امریکہ کی جانب سے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر مسلط کی جانے والی نام نہاد وارآن ٹیرر کے مظالم کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جدید مغربی تہذیب کے ظاہری روشن چہرے کے پیچھے چھپی ہوئی شقاوت، درندگی اور متشدد دانہ شیطانیت کی علامت بن گئی ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی داستان سننے کا حوصلہ بھی ہر کسی میں نہیں ہے ۔ 2003 میں چھوٹے اور کم عمر تین بچوں کی ماں کراچی میں اپنے گھر سے ایر پورٹ کے راستے میںاغوا کر کے لاپتا کر دی جاتی ہے ۔ بالآخر نو مسلم برطانوی صحافی ایوان ریڈلی انکشاف کرتی ہے کہ وہ افغانستان میں امریکیوں کی قید میں ہے ، اس انکشاف کے بعد اسے امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں اسے ایک جعلی مقدمہ چلا کر عمر قید کی سزا دے دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا گرفتاری ، غیر قانونی حراست، مقدمہ چلانے کی کارروائی نے عالمی نظام، جدید تہذیب کے طرزِ حکمرانی اور امریکی نظام انصاف کے سفاک چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ امریکی جیل ڈاکٹر عافیہ کے الفاظ میں دنیاوی جہنم ہے ، عافیہ کی داستان بہت سارے سوالات سامنے لاتی ہے ، لیکن سوالات اور ان کے جوابات اسی وقت ملیں گے جب آخری عدالت قائم ہو گی اس کے باوجود اس سوال کا جواب دینا حکومت پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے پردے میں سفاکانہ دہشت گردی کیوں مسلط کردی گئی ہے آخر وہ کون ہے جو اپنے بچوں ہی کو عقوبت خانوں میں رکھتا ہے ۔ لیکن اس سوال کا جواب نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اسے کیوں نشان عبرت بنایا گیا۔ کیا وہ وقت آئے گا جب امریکی وارآن ٹیرر کے فوج کے ذمے داروں پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات چلا ئے جائیں گے ۔ ایسا نہیںہو گا توجاننا چاہے کہ آخرت کا حساب زیادہ دور نہیںہے ۔