پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک بن گیا

708

گزشتہ دنوں ایک ویب سائٹ کی جانب سے مہنگے ترین ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے مہنگائی کی دوڑ میں سری لنکا کو بھی مات دیدی ہے۔ غذائی افراط زر کی فہرست میں پاکستان دنیا بھر میں 13ویں نمبر پر ہے جبکہ نادہندہ ہونے والے ملک سری لنکا کا فہرست میں 18واں نمبر ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس نامی ویب سائٹ کی جانب سے غذائی افراط زر سے متعلق دنیا بھر کے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ فہرست کے مطابق لبنان 352 فی صد مہنگائی کے ساتھ دنیا کا مہنگا ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ 0.4فی صد کے ساتھ چین غذائی افراط زر کے حوالے سے دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں وینیز ویلا 158فی صد کے ساتھ دوسرے، زمبابوے 108فی صد کے ساتھ تیسرے جبکہ ایران کا 71.5 فی صد کے ساتھ فہرست میں چوتھا نمبر ہے۔ اسی طرح اسلامی ملک ترکی 53.92 فی صد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے بعد پاکستان 48 فی صد کے ساتھ 13 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت 3.84 فی صد کے ساتھ 152ویں جبکہ بنگلا دیش کو 9.09فی صدکے ساتھ 111واں نمبر دیا گیا ہے۔ مہنگائی نے پاکستانی عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشانی میں ڈال رکھا ہے، المیہ یہ ہے کہ گندم کی ریکارڈ فصل کے باجود مارکیٹ میں آٹے کا بحران قائم ہے اور قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کسی دور میں پاکستان کا شمار سستے ترین ممالک میں ہوا کرتا تھا اور حکومتی ذمے داران دنیا بھر میں مثالیں دیتے تھے کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے لیکن آج یہ حال ہے کہ ہم سری لنکا جو ڈیفالٹ کر چکا ہے ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے لیکن معاشی مسائل کے باعث ترقی کے بجائے ہم تنزلی کی جانب گامزن ہیں، یہاں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے ڈیرے جمارکھے ہیں اور مہنگائی کے باعث لوگوں کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہیں یا ختم ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک چھوڑے جارہے ہیں۔ یہاں اقتدار میں آنے سے ہر سیاسی جماعت پہلے غربت و مہنگائی کا خاتمہ کے نعرے لگاتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعتیں اس کے برعکس اقدامات اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ملک میں اس وقت سیاست اور معیشت دو ہی بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے جب تک یہ دونوں مسائل حل نہیں ہوں گے ملک کی سمت درست نہیں ہوگی۔ ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ثابت ہورہے ہیں۔ اسحاق ڈار کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے۔ حکومت کی سرتوڑ کوشش اور تمام تر شرائط کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان پر اندھا اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اسٹیٹ بینک کی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششوں نے اکانومی اور سرمایہ کاروں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرمسلسل گررہے ہیں بجلی اور گیس کی قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوادی ہیں، مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیے ہیں۔
بابائے قوم قائد اعظمؒ نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ برامد بھی کرتے تھے، آج ہم انہیں درامد کر رہے ہیں جس کے لیے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ پچھلی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کر کے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دو چار کر دیا۔ ملک کو در پیش سنگین معاشی صورت حال سے نکالنے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کا مقصد پاکستان معاشی بحران سے نکالنا اور ملکی وسائل میں اضافہ کرنا ہے۔ ارض پاک جس نازک صورت حال سے دو چار ہے، اس سے نکلنے کے لیے سخت ترین فیصلے اور ان پر سختی سے کار بند ہو کر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گا مگر حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ گزشتہ دور حکومت میں کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں ریاستی اقتدار اعلیٰ کئی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت گنوا بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کے دقیانوسی مالی و مالیاتی نسخوں سے کام چلا اور نہ چلے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے تو نکال سکتی ہے مگر مالی مشکلات سے نہیں بچا سکتی۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے سے پاکستان کو قرض مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد حکومت پاکستان ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے خود انحصاری کی جانب قدم بڑھائے۔ عوام کو مسلسل قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی عادت ڈالی جائے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے بھر پور ملک ہے ان وسائل کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان بہت جلد خودانحصاری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے اب دو فی صد اشرافیہ کو سچے دل سے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی یہ کشتی منجدھار سے نکل کر کنارے پر لگے گی۔ بلاشبہ جمہوری حکومت عوام کی، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے لیکن اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔ بے پناہ وسائل کے حامل اس ملک کو خلوص نیت ایمانداری اور دیانت داری سے چلایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک و قوم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکیں۔