سیاسی بحران اور آئی ایم ایف

908

پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی سربراہ سے ٹیلی فونک مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندے اور مشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔ جون کے آخر میں پاکستان کے قرض پروگرام کی مدت ختم ہونے سے قبل بورڈ میٹنگ کی راہ ہموار کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ہم نے بجٹ کی تفصیلات سے آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا ہے۔ آئی ایم ایف نے شرط عائد کی ہے کہ پاکستان کے آئندہ مالیاتی سال کے لیے بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف سے منظوری لی جائے گی۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو بجٹ کی تفصیلات مہیا کردینے کے باوجود ابھی تک منظوری حاصل نہیں ہوسکی ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک بجٹ کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوسکا ، یہاں تک کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا اختیار استعمال کریں، تاکہ پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط ہوجائیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی سربراہ کو بتایا کہ ہم نے تمام شرائط اور احکامات پر عمل کرلیا ہے، اس کے ساتھ ہی بجٹ تفصیلات سے بھی آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم اور آئی ایم ایف سربراہ کی بات چیت میں وزیر مملکت برائے خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا بھی شریک تھیں جو بجٹ تیار کرنے والے عملے اور وزارت خزانہ کی معاشی ٹیم کی عملی قیادت کررہی ہیں۔ اس مکالمے کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف سے بجٹ کی منظوری اور قرض کے معاہدے پر دستخط کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ حکومت کی خواہش یہ ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے قبل آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے لیکن وزارت خزانہ ابھی تک آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں ناکام ہے۔ جبکہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوا تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ وزیر خزانہ اور وزیراعظم مسلسل یقین دہانی کرارہے ہیں کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی یقین دہانی کے باوجود معاشی حالات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک طرف ملک معیشت کی تباہی کے خطرات میں گھرا ہوا ہے دوسری طرف پاکستان کا سیاسی بحران بڑھتا جارہا ہے۔ ماہرین معیشت اور سیاسی مبصرین مسلسل اس خطرے سے خبردار کررہے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بحران سے نہیں نکلا جاسکتا لیکن حکومت، حزب اختلاف اور تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے طرزِ عمل سے سیاسی بحران کو ناقابل حل اور بند گلی میں پہنچا رہے ہیں۔ ملک کا سیاسی بحران بھی عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ معاہدوں کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم اور آئی ایم ایف سربراہ کے درمیان بات چیت کے بعد مشن کے مقامی سربراہ عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے پاکستان کی معیشت پر جو اظہار خیال کیا ہے اس میں خاص طور پر ایک جملہ یہ کہا گیا ہے کہ ’’اگرچہ آئی ایم ایف ملکی سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا، تاہم پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، فنڈ سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں کسی رائے سے گریز کرے گا‘‘۔ اس غیر معمولی اظہار خیال نے اس حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا ہے کہ عالمی ادارے کو موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں ہے اور پاکستان کا سیاسی بحران بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک شرط یہ بھی عائد کی ہے کہ پاکستان دوست ملکوں سے ضمانت بھی دلوائے جن میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، لیکن دوست ملکوں اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی یہ پیغام آیا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف سے معاہدہ مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی مدد نہیں کی جاسکتی۔ گزشتہ برس کے اپریل سے پاکستان میں سیاسی بحران کا آغاز ہوا اور پاکستانی سیاست کے تمام کرداروں نے بحران کو پیچیدہ بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا اور اب ایسے مرحلے پر پہنچا دیا ہے کہ عالمی قوتیں اس پر سرعام تبصرہ کرنے لگی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی بحران کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کا اولین سبب ایک ہے اور 1958ء سے تسلسل سے جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ امور مملکت میں فوج نے براہ راست مداخلت کی ہے۔ براہ راست فوجی حکمرانی اور بالواسطہ مداخلت نے تمام آئینی اداروں کو برباد کردیا جس نے جابرانہ اور استبدادی نظام حکمرانی کو قوم پر مسلط کردیا ہے۔