یوم تکبیر!! کانٹے سے کہوٹا تک سفر

977

28 مئی 1998 کو پاکستان ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔ یہ اس خواب کی تعبیر تھی جو سقوط ڈھاکا کے بعد ایک درماندہ حال اور شکست خوردہ قوم کی آنکھوں میں اترا تھا بالکل اسی طرح جیسے بھیڑیوں میں گھری تنہا ہرنی جان بچانے کے لیے اپنی تمام قوت و صلاحیت کو مجتمع کرکے اپنی استعداد سے زیادہ لمبی قلانچیں بھرتی ہے۔ دولخت ہوئے ملک کا ایٹمی طاقت بننے کا خواب اپنی طاقت اور صلاحیت سے زیادہ لمبی قلانچ کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ اس خواب کو دیکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس خواب کی تعبیر کی تلاش کے ابتدائی مراحل کو آسان بنانے میں ان کے عالمی دوستوں سعودی فرما فروا شاہ فیصل اور لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کا کردار نمایاں ہے۔ جنرل ضیاء الحق آئے تو بھٹو کی ضد میں انہوں نے اس خواب کو اپنا خواب بنائے رکھا یہاں تک کہ انہی کے دور میں پاکستان اس صلاحیت کے حصول میں کامیاب ہوگیا اور انہوں نے بھارتیوں کے جارحانہ عزائم کے جواب میں ان کے کانوں میں یہ بات ڈالنا شروع کردی کہ اس بار جارحیت کی حماقت نہ کرنا ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ ضیاء الحق کی یہ سرگوشی بھارتیوں کے منصوبوں پر خاک ڈال دیتی۔ ایک جنگ جس کے بارے میں خود بھارتی مصنف نے اپنی کتاب کا عنوان رکھا کہ ’’ایک جنگ جو لڑی نہ جا سکی‘‘ محض ایٹم بم کی موجودگی کی سرگوشی سے لڑی ہی نہیں گئی۔
پاکستان کے اس ایٹمی پروگرام کو مغرب نے روز اول سے اپنے نشانے پر رکھا یہ دنیا کا واحد ایٹم بم تھا جسے اسلامی بم کا نام دیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل کا بم یہودی بم کہلایا نہ امریکا اور برطانیہ کا بم عیسائی بم نہیں کہلایا، بھارت کے بم کو ہندو بم کہا گیا اور نہ چین کے بم کو بدھسٹ بم کہا گیا۔ یہ مہربانی صرف پاکستان کے ایٹم بم پر ہوئی کہ مغربی دنیا نے اس کا مذہب بھی دریافت کر لیا۔ بیرونی مہربان تو ایک اسلامی ملک کی اس صلاحیت سے نالاں تھے انہی کے ایما پر ملک کے اندر بھی لایعنی سوالات اُٹھائے جانے کا سلسلہ ہر دور میں جا ری رہا حالانکہ دنیا میںکوئی بھی ایٹم بم عوام کا پیٹ بھرنے، ان کے روزو شب میں کسی انقلاب کا باعث نہیں بنا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایٹمی طاقت بنتے ہی کسی معاشرے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہوں۔ ایٹم بم سستی روٹی کا کوئی تنور نہیں ہوتا کہ جو لوگوں کے پیٹ بھرنے کا کام دے۔ مکانات تعمیر کرنے والی کوئی کمپنی نہیں ہوتا کہ جو لوگوں کو چھت فراہم کرے اور نہ کپڑا بُننے کی فیکٹری ہوتا ہے جو عوام کے تن ڈھانپنے کا سامان کرے۔ اس کا براہ راست تعلق عوام کی خوش حالی سے نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود ایٹمی طاقت کے حصول سے عوام کی خوشحالی وابستہ ہوتی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں جو روز اوّل سے بھارت کی صورت میں براہ راست اور افغانستان کی صورت میں بالواسطہ خطرے میں گھرا رہا اور تین باقاعدہ جنگوں سے بھی گزرا اور اپنا ایک حصہ گنوا بیٹھا ایٹم بم تحفظ کی علامت ہوتا ہے۔ یعنی اس طاقت کے حصول کے بعد آپ کم از کم ڈیٹرنس کے اصول کے تحت دشمن کے اچانک پل پڑنے والے خوف اور خطرے سے نکل آتے ہیں۔ یوں آپ کی توجہ معاشی خوش حالی پر مرکوز ہوتی ہے۔ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت زیادہ شامل ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جنگ نہ ہونے کا احساس دراصل امن قائم ہونے کا ہی نام ہے اور امن کا ماحول غیر یقینی کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ ماحول اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے خوش گوار اور سازگار فضاء بناتا ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم نے اپنے حصے کا کام کر دیا گویاکہ پاکستان بھارت کی جارحیت کے خوف سے آزاد ہوگیا۔ اب باقی کام ایٹم بم نے نہیں کرنے تھے۔ ایٹم بم کے بعد بننے والے ماحول سے فائدہ اُٹھانا سیاسی اور معاشی منصوبہ سازوں کا کام تھا جس میں بری طرح غفلت برتی گئی۔
1998 میں پاکستان میں میاں نوازشریف کی حکومت تھی اور بھارت میں اٹل بہاری واجپائی حکمران تھے۔ ایک روز اچانک یہ خبر پھیلی کہ بھارت نے راجستھان میں پوکھران کے مقام پر کئی ایٹمی دھماکے کیے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ بھارت خود کو اعلانیہ اور باضابطہ ایٹمی طاقت قرار دے چکا تھا۔ اب دنیا کی نظریں پاکستان لگی تھیں۔ دنیا جانتی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان متعدد مواقع پر اس کا کھلا اعلان کرچکے تھے مگر دنیا کے پاس اس دعوے کو جانچنے کا کوئی پیمانہ تھا نہ ثبوت۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں یہ سوال شد ومد سے اُٹھایا جانے لگا کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں امریکا اور دوسری طاقتوں کے دوہرے پیمانے اور میعار اس وقت بھی موجود تھے۔ اس لیے ایک طبقے کا خیال تھا پاکستان کو جوابی کارروائی کے طور پر ایٹمی دھماکے نہیں کرنے چاہیے۔ اس طرح امریکا پاکستان سے مزید پرخاش رکھے گا اور اسے حیلوں بہانوں سے پابندیوں کا شکار بنائے گا۔ دوسری رائے یہ تھی کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب نہ دیا تو پاکستان کی ایٹمی قوت بننے کا خواب اکارت جائے گا اور دنیا کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے اور اسی خاموشی سے امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بساط لپیٹ دے گا۔ دونوں طبقات اپنے موقف کے حق میں بھرپور دلائل دیتے رہے۔ اس دوران امریکا بھی حسب توقع بیچ میں کود پڑا اور امریکیوں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے گاجر اور چھڑی کی روایتی پالیسی اختیار کر لی۔ کبھی امریکی پاکستان کو دھمکاتے اور سنگین نتائج سے ڈراتے تو کبھی بھاری مالی امداد کی پیشکش کرتے۔ اس فیصلہ کن گھڑی میں پاکستان کی حکومت نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا اعلان کیا اور یوں اٹھائیس مئی کو بلوچستان چاغی کے پہاڑ پہ در پہ ایٹمی دھماکوں سے لرز اُٹھے۔ اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا یعنی ربّ کی کبریائی اور بڑائی کا دن۔ وقت نے ثابت کیا کہ پا کستان کی ایٹمی صلاحیت کسی جارحیت کے لیے نہیں بلکہ اپنے دفاع کے لیے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے سنجیدہ کام کا آغاز کیا تو تین جنگیں لڑنے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان چوتھی جنگ نہیں ہوئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا ایٹم بم جنگ کے لیے نہیں بلکہ امن کے لیے ضروری ہے۔