امت ِ مسلمہ کے چار فرائض

643

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر امت ِ مسلمہ کے چار فرائض بیان کیے گئے ہیں: نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، نیکی کے کاموں میں تعاون اور گناہ کے کاموں میں عدمِ تعاون، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں، تم ان میں سب سے بہترین امت ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘، (آل عمران: 110) دوسرے مقام پر اہلِ ایمان کی صفاتِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’(یہی لوگ ہیں:) جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے، اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (ان صفات کے حامل) مومنوں کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘، (التوبہ: 111-112) یہی صفات سورۂ آل عمران: 104 اور 110، سورۂ اعراف: 157، سورۂ توبہ: 67 اور 71، سورۂ حج: 41اور سورۂ لقمان: 31 میں بیان کی گئی ہیں۔ نیز علمائے بنی اسرائیل کی مذمت میں فرمایا: وہ لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے تھے، لیکن وہ یہ بات فراموش کردیتے تھے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح ان احکامِ الٰہی کے پابند ہیں، چنانچہ فرمایا: ’’اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو اور دیدہ دانستہ حق کو نہ چھپائو اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیتے رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (البقرہ: 42-44)
علمائے بنی اسرائیل کے اسی شِعار کے سبب اُن پر سیدنا دائود وسلیمانؑ کی زبانی لعنت فرمائی گئی، حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں پہلے پہل خرابی نے اس طرح نفوذ کیا کہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: ارے بھئی! کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتا تو اسے اُس کام سے نہ روکتا بلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین (یعنی برائی میں شریکِ کار) بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپؐ نے المائدہ کی آیات 78 تا 80 تلاوت کرکے فرمایا: ’’ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور تم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کرو گے‘‘۔ (ابودائود) المائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے: ’’بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا، اُن پر دائود اور عیسیٰ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ جو برا کام کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے، یقینا وہ بہت برے کام کرتے تھے‘‘۔ (المائدہ: 78-79)
الغرض لجاجت بھرے انداز میں نیکی کا حکم دینا تو قدرے آسان یا لوگوں کے لیے کسی حد تک قابلِ برداشت ہے، لیکن برائی پر روک ٹوک کرنا وہ ہر عہد کے سرکش لوگوں کو کبھی برداشت نہیں ہوا، ائمۂ ضلالت کے پیروکار حق کے آگے سرنگوں ہونے کے بجائے اپنے سرداروں کے دفاع میں حد سے گزر جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف انہیں چھوکر بھی نہیں گزرا اور یہ کہ انہیں اللہ کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کے لیے جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا، اس لیے وہ کلمۂ حق کی حمایت کے بجائے نفرت وعداوت پر اتر آتے ہیںاور شرفاء کو عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن اپنی عزت کے تحفظ کے لیے کلمۂ حق کہنے سے دستبر دار ہونے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جبریلؑ کو حکم فرماتا ہے: ’’فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو‘‘، وہ عرض کرتے ہیں: ’’پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی) بندہ ہے، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (اس کے بارے میں کیا حکم ہے)‘‘، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا‘‘۔ (شعب الایمان) حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں، مُنکَرات کا چلن عام رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی تدبیر تو دور کی بات ہے، حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پرکبھی اس کی جبین پر شکن بھی نہیں آئی، وہ صرف اپنی عبادت اور اذکار میں مشغول رہا، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔
قرآنِ کریم نے اُمّت ِ مسلمہ کی تیسری صفت ’’تَعَاوُنْ عَلَی الْبِرّ‘‘(یعنی نیک کاموں میں باہم تعاون کرنا) بتائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ حدیث پاک میں ہے: ’’ایک شخص رسول اللہؐ کے پاس سواری مانگنے کے لیے آیا، اس وقت آپ کے پاس اُسے دینے کے لیے کوئی سواری نہیں تھی، تو آپؐ نے ایک دوسرے شخص کی طرف رہنمائی کی اور اُس نے اُسے سواری فراہم کردی، پھر وہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پورا ماجرا بتایا، آپؐ نے فرمایا: نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والے کو اُتنا ہی اجر ملتا ہے، جتنا نیکی کرنے والے کو ملتا ہے‘‘۔ (ترمذی) جب آپؐ غارِ حرا سے پہلی وحی لے کر اُمّ المومنین سیدہ خدیجہؓ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو تسلّی دیتے ہوئے کہا: بخدا! اللہ آپ کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں جنہیں مشکلات درپیش ہوں، آپ اُن کے مددگار بنتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
اعلانِ نبوت سے پہلے اہلِ مکہ نے ایک معاہدہ کیا تھا، اس کا نام ’’حِلف الفُضول‘‘ تھا، اس کا یہ نام اس لیے قرار پایا کہ معاہدے کے تمام فریقوں کے ناموں میں لفظِ فضل آتا ہے، یعنی فضل بن فُضَالہ، فضل بن وُداعہ اور فضل بن حارث۔ یہ معاہدہ رسول اللہؐ کی بعثت سے تقریباً بیس سال پہلے منعقد ہوا، آپؐ نے فرمایا: ’’اگر آج بھی مجھے ’’حِلفُ الفضول‘‘ کے نام پر مدد کے لیے پکارا جائے تو میں لبیک کہوں گا‘‘، اس معاہدے میں طے پایا تھا: ’’ہم سب متحد ہوکر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کو اس کا حق لوٹا دے، ہم معاش میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ہم اُس وقت تک عہد کے پابند رہیں گے جب تک کہ سمندر میں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی ہے اور حرا اور ثبیر پہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہیں‘‘۔ (سبل الھدیٰ والرشاد) یعنی اس معاہدے کو کسی خاص مدت تک محدود نہیں رکھا گیا تھا، بلکہ اسے دائمی حیثیت دی گئی تھی۔ اس موقع پر سیدنا زبیر بن عبدالمطلب نے اپنی مَسرّت کا اظہار ان اشعار میں کیا ہے:
إنّ الْفُضُوْلَ تَحَالَفُوْا وَتَعَاقَدُوْا٭أَلّا یُقِیمَ بِبَطْنِ مَکّۃَ ظَالِمُ٭أَمْرٌ عَلَیْہِ تَعَاہَدُوْا وَتَوَاثَقُوْا٭فَالْجَارُ وَالْمُعَتّرُ فِیْہِمْ سَالِمُ
ترجمہ: ’’فضل نامی معاہدہ کرنے والوں نے حلف اٹھایا اور پختہ عہد کیا کہ وہ وادیِ مکہ میں کسی ظالم کو ٹھیرنے نہیں دیں گے، یہ ایسی بات ہے جس پر اُن سب نے معاہدہ اور اتفاقِ رائے کیا، ہمارے پڑوس میں رہنے والے قبائل اور پردیسی دونوں ہرقسم کے جوروستم سے محفوظ رہیں گے‘‘۔ (اَلرَّوْضُ الْاُنُف)
آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، یہاں ریاستیں بھی ہیں، نظامِ حکومت بھی ہے، لیکن مظلوموں کی داد رسی کا کوئی شفاف انتظام نہیں ہے، با اثر اور بارسوخ لوگ بچ جاتے ہیں اور کمزور لوگ قانون کی گرفت میں آتے ہیں، چنانچہ جب بنو مخزوم کی ایک خاتون فاطمہ نے چوری کی اور قریش نے سیدنا اسامہ (ان کا لقب محبوبِ رسول تھا) کے ذریعے سفارش کروائی کہ اگر اس کا ہاتھ کاٹا گیا تو قریش کی ذلت ورسوائی ہوگی، ناک کٹ جائے گی، اس لیے اس کے ساتھ استثنائی سلوک کیا جائے، تو رسول اللہؐ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: ’’بے شک بنی اسرائیل میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیا جاتا اور کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاجاتا، اگر (بفرضِ مُحال) فاطمہ (بنتِ محمد) بھی ہوتیں تو میں ضرور اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ (بخاری) ظاہر ہے خواتین عالَم اور خواتینِ جنّت کی سردار سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے کسی ایسے جرم کا صادر ہونا متصور بھی نہیں ہوسکتا،
لیکن رسول اللہؐ نے بفرضِ مُحال یہ مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ حدودِ الٰہی اور احکامِ الٰہی کے نفاذ میں با اثر اور بے اثر دونوں برابر ہیں اور دونوں سے یکساں سلوک کیا جائے گا۔ امام بخاری نے صرف ’’فاطمہ‘‘ نام لکھا ہے، جبکہ نسائی میں ’’فاطمہ بنت محمد‘‘ اور ابن ماجہ میں ’’فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ‘‘ کے کلمات آئے ہیں۔ رسول اللہؐ نے علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (اُن میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے میں) کسی شخص کی عزت (اُس کے علم، تقویٰ یا کردار کے سبب نہیں، بلکہ) اُس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے‘‘۔ (ترمذی)
چوتھی بات یہ تعلیم فرمائی گئی ہے کہ گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عملاً ان برے کاموں میں کوئی کسی کا مددگار بن جائے اور اس سے کم تر درجے کی بات یہ ہے کہ خود تو ان کاموں میں مددگار نہ ہو، لیکن ایسی مجلسوں میں شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک اللہ قرآن میں تم پر یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم سنو: اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے اور اُن کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو تم ایسی مجلس میں نہ بیٹھو حتیٰ کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں، (ورنہ) تم بھی اُن جیسے ہوجائو گے‘‘، (النسآء:140) ’’اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو اُن سے منہ پھیر لو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کہیں شیطان تمہیں بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظلم کرنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔ (الانعام: 68)