اقوام متحدہ اور بلوم برگ کا انتباہ

627

پاکستان کے حکمران طبقے کے متحارب گروپوں کو پہلے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کا براہ راست اثر عوام اور ملکی معیشت پر پڑ رہا ہے اور اگر یہ بحران مزید بگڑا تو معاشی طور پر شدید ترین مشکلات آئیں گی لیکن متحارب فریقوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ امریکی سازش، فوج کی سازش اور بیرونی سازش کے بیانیوں پر قائم ہیں ایک فریق کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کی تیاری ہے تو دوسرا عالمی اداروں کو پکار رہا ہے۔ پاکستان میں شاید فوج تو کبھی کبھی متنازع ہو جاتی ہے لیکن اس فوج کے شہدا کبھی متنازع نہیں ہوئے لیکن ان کی تکریم کا دن بھی منانا پڑ گیا۔ حکومت عدلیہ کے اختیارات کم کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اب عمران خان کو بھی عدلیہ سے امیدیں کم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں غرض تمام فریق ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہیںاور ہر ایک کا کہنا ہے کہ دوسرا ملک دشمنی کر رہا ہے حالانکہ اپنے عمل سے تینوں وہی کر رہے ہیں جس کا الزادم دوسروں کو دیا جارہا ہے۔ ملک کے اندر موجود درد مند دل رکھنے والوں کی بات تو نہیں سنی جاتی لیکن ہمارے حکمران طبقے کی یہ خصوصیت ہے کہ باہر سے کوئی بات آجائے تو سنی جاتی ہے اور سمجھ میں بھی جلد آجاتی ہے۔ اب اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کا معاشی اور سیاسی بحران مزید بگڑا تو آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں خوراک کا نظام مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام اور غیر معیاری اصلاحات یا ناقص اصلاحاتی اقدامات آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈز کے اجرا میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں جب کہ پاکستان کے دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے بھی اضافی امداد روکنے کا سبب بن رہے ہیں۔ سیلاب کی تباہیاں پہلے ہی پیچیدہ تھیں۔ اس قدر تنائو کی کیفیت ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی بحران اور بدامنی بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس صورت حال کی پیشگوئی کے لیے کوئی بہت زیادہ مہارت کی ضرورت نہیں۔ کسی قسم کی رپورٹوںکی بھی ضرورت نہیں۔ گزشتہ پانچ برس سے پاکستان میں ترقی کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ سابق حکمران عمران خان اپنے سابق حکمرانوں کو چور ڈالو قرار دے کر مسلسل ان کے بارے میں چور چور ڈاکو ڈاکو پکارتے رہے یہاں تک کہ وہ چور اور ڈاکو ایک ہو گئے اب دونوں مل کر عمران خان اور ان کی ٹیم کو چور ڈاکو قرار دے رہے ہیں اس کوشش میں پی ڈی ایم والے بھی سوا سال میں کچھ نہیں کر سکے۔ حتیٰ کہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط وصول نہیں کر سکے۔ یہ بات صرف اقوام متحدہ نے نہیں کہی ہے امریکی جریدے بلوم برگ نے بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کہی ہیں۔ بلوم برگ کے مطابق سیاسی کشمکش جاری رہی تھی تو روپیہ مزید گر جائے گا۔ بلوم برگ نے بھی وہی بات کہی جو عمران خان شریف اور زرداری کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ سرمایہ بیرون ملک لے جارہے ہیں۔ بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے اور یہ معاملہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد مزید بگڑ گیا ہے۔ بلوم برگ نے بھی آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ سیاسی خلفشار اور سیاسی بحران کو قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ موٹی سی بات ان میں سے کسی فریق کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی۔ اب تو یہ بات زیادہ واضح ہو کر سامنے آرہی ہے کہ یہ جنگ آمنے سامنے کھڑے فریقوں کی نہیں ہے بلکہ یہ فریق تو دوسرے دو فریقوں کے مہرے ہیں ان کو آگے کیا ہوا ہے تا کہ اگر نقصان بھی ہو تو مہروں کو ہو یعنی مہرے تو ہوتے ہی پٹنے کے لیے ہیں لیکن انہیں اس جانب توجہ دینے کا وقت نہیں مل رہا کہ اس ساری لڑائی کا نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے۔ جب ایسا کوئی سانحہ ہو جائے گا تو یہ اس کے بعد بھی ایک دوسرے کو الزام ہی دیتے رہیں گے لیکن ملک کو تباہی کے د ہانے پر پہنچا دیں گے اب تو ان لوگوں کو پہچان لیا جانا چاہیے۔ اگر یہ سب ملک کو قرضوں کے دلدل سے نکالنے کے لیے لڑ رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ملک میں آنے والے دنوں میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں بلکہ چیلنجز درپیش ہیں کہ پاکستان کو جون 2026ء تک 77.5 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہوں گے اور ساڑھے تین سو ارب ڈالر کی جی ڈی پی والی معیشت کے لیے یہ ہر طرح ناممکن ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ بات نہیں معلوم۔ ان سب کو اچھی طرح معلوم ہے لیکن یہ ان سب باتوں کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔ ساری صورت حال پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجا طور پر تبصرہ کیا ہے کہ تیرا چور مردہ بات میرا چور زندہ بات کہنے والے اس ملک کے معاملات میں بہتری نہیں لا سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ الیکشن کروا کر ان سب کو فارغ کیا جائے۔