مستقل مزاجی؟

681

مستقل مزاجی ایک ایسا عمل ہے جو انفرادی ہو یا اجتماعی خوش آئند ہوتا ہے مگر جب ہٹ دھرمی کو مستقل مزاجی کہنے کا رجحان فروخت پانے لگے تو معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے المیہ یہی ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے ہٹ دھرمی کا مظہر بن گئے ہیں۔ حالانکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی ہے کہ ہٹ دھرمی دھرم کی بات نہیں مانتی۔ بالادستی پیش دستی بن جائے تو دھول دھپا شغل رئیساں کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جس برہمی کا اظہار کیا ہے اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیونکہ یہ انہونا واقعہ نہیں قبل ازیں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کی حراست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے غیر آئینی اور پھر آئینی قرار دے دیا مگر گرفتار کرنے والوں کو توہین عدالت مرتکب قرار دے دیا۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری نے وکلا برادری کو بیدار کر دیا ہے اور اب انقلاب کالا کوٹ لے کر آئے گا۔ سابق چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کالا کوٹ پہلے بھی انقلاب لایا تھا۔ مگر اس کے نتیجہ میں انصاف چودھری انصاف بن گیا۔
اس معاملے میں بہاولپور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی نے سخت حیرت کا اظہار کیا ہے انہوں نے گزشتہ دنوں ڈپٹی رجسٹرار بہاولپور ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی ان کے خلاف دائر اپیل غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ کیونکہ محکمہ مال سول کورٹ اور سیشن کورٹ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کر چکی ہے جس کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مگر دس پندرہ برسوں میں کسی ایک پیشی پر سماعت نہیں ہوئی۔ کبھی ری لسٹ کبھی ڈی لسٹ اور کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ بابا جی نے گزارش کی تھی کہ اس بے بنیاد مقدمہ کو خارج کر کے ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے۔ ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ انہیں مقدمہ خارج کرنے کا اختیار نہیں البتہ پیشی دلا سکتے ہیں اور سول برانچ کو فون کر کے پیشی دلا دی۔ 09-05-1923 کو پیشی تھی مگر جسٹس صاحب کی مستقل مزاجی آڑے آگئی اور حسب معمول لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا گیا۔ ضرب اتنی شدید تھی بابا جی بلبلا اُٹھے اور آپے سے باہر ہو گئے اور کمرۂ عدالت میں بلند آواز سے احتجاج کرنے لگے۔ نائب قاصد نے کہا کہ جو کچھ کہنا ہے کمرۂ عدالت سے باہر نکل کر کہو اور اپنے لب و لہجے پر کنٹرول کرو۔ یہ سن کر بابا جی کا بلڈ پریشر مزید بڑھ گیا۔ کہنے لگے عدالت کی غلام گردشوں میں غلامانہ طرز عمل پر شکوہ کرنے کا کیا فائدہ میرا مقدمہ دس پندرہ برسوں سے زیر سماعت ہے مگر اس طویل عرصے میں ایک بار بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ ہر پیشی پر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ اگر جسٹس صاحبان اسی مستقل مزاجی سے لیفٹ اوور کا حکم دیتے رہے تو مقدمے کا فیصلہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر جسٹس صاحبان انصاف فراہم نہیں کر سکتے تو عدالت میں کیوں آتے ہیں۔ یہ کام تو گھر بیٹھے بیٹھے بھی سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ مجھے جسٹس صاحب کے سامنے پیش کرو۔ تاکہ میں پیشی درپیشی کے ڈرامے کا مقصد سمجھ سکوں۔ نائب قاصد نے کہا جسٹس صاحب حکم دے چکے ہیں اور دوسری پیشی کا انتظار کرو۔ بابا جی نے کہا دس برسوں سے انتظار ہی تو کر رہا ہوں۔ مگر اب مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ جسٹس صاحب سے ملنا ہے۔ نائب قاصد نے کہا ملاقات کے لیے آپ کو وقت لینا ہوگا۔ وہاں ایک موجود شخص نے کہا بابا جی آپ کی آواز ریڈر تک پہنچ گئی ہوگی۔ وہ سیکرٹری کے کمرے میں موجود ہیں ان سے بات کرو۔ یقینا پیشی مل جائے گی۔ بابا جی کمرۂ عدالت سے نکل کر سیکرٹری کے آفس میں گئے ریڈر نے کہا آپ مقدمہ کا نمبر اور اپیل کنندہ کا نام بتائیں میں پیشی دے دوں گا۔ بابا جی نے مقدمہ کا نمبر اور اپیل کنندہ کا نام بتایا۔ پیشی کی تاریخ پوچھی تو بابا جی آپ جائیں آپ کے وکیل کو پیشی کی تاریخ بتا دی جائے گی۔ بابا جی مطمئن ہونے کے بجائے مزید مشتعل ہوگئے۔ کہنے لگے پیشی کا کیا فائدہ جسٹس صاحب پھر لیفٹ اوور کردیں گے۔ بابا جی آپ دیکھ رہے ہیں جسٹس صاحب صبح سے سماعت کر رہے ہیں۔ وقت کی تنگی کے باعث باقی مقدمات لیفٹ اوور کر دیے گئے ہیں۔ بابا جی نے کہا کہ اس وقت ایک بجا ہے جسٹس صاحب نو بجے آئے تھے اور گیارہ بجے ٹی بریک پر چلے گئے۔ ساڑھے بارہ بجے آئے اور ایک بجے لیفٹ اوور کا حکم دے کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ عدالت کا وقت چار بجے تک ہے۔ لیکن وہ تین گھنٹے پہلے ہی چیمبر میں چلے گئے۔ اگر ایک گھنٹہ مزید سماعت کرتے تو لیفٹ اوور کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب تک لیفٹ اوور کا ہتھوڑا چلتا رہے گا مقدمات بھی چلتے رہیں گے۔ اس پس منظر میں مقدمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے ۔
سرخرو ہونے کو ایک سیلاب خوں درکار ہے
جب بھی دریا چڑھے گا پار اتر جائیں گے لوگ