بے ضمیری کا مظہر

629

دنیا کی بیس بڑی معیشتوں پر مشتمل گروپ ’’جی ٹوئنٹی (G-20) کہلاتا ہے۔ اس کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے اور ہر سال اس کی سربراہی اور میزبانی ان ہی میں سے ایک علٰیحدہ ملک کرتا ہے۔ اس سال اس کی میزبانی بھارت کے حصے میں آئی۔ بھارت نے ہمیشہ کی طرح جی 20 کے اجلاس کو سیاسی طور سے استعمال کرنے کی کوشش کی اور مقبوضہ کشمیر میں اس کو منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ اس کا یہ قدم اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ اس اجلاس کو متنازع علاقے کشمیر میں منعقد کرنے کا بھارت کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی اور یک طرفہ الحاق کو جائز قرار دینا تھا۔ بھارتی حکمران اس کے انعقاد کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کے 2019ء کے جموں کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے نے خطے میں بہتر تبدیلی آئی ہے معاملات معمول کے مطابق ہیں۔ کشمیری نمائندے اس سلسلے میں بھارت کی خوش فہمی کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ الجزیر سے گفتگو کرتے ہوئے ایک کشمیری کا کہنا تھا کہ ’’اب نارمل ہونے کا مطلب قبرستان کا معمول نہیں ہے جہاں آپ پر میڈیا لوگوں اور جیلوں میں بند لوگوں پر پابندیاں ہوں اور ساتھ آپ دنیا کو پیش یہ کر رہے ہوں کہ سب کچھ نارمل ہے‘‘۔ دنیا نے بھارت کے اس اقدام کے جبر کو محسوس کیا ہے۔ اسی لیے جی 20 کے اہم ممالک نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی جن میں اہم چین، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور مصر ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے سخت ردعمل چین کا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’چین سختی سے جی 20 کا کسی قسم کا اجلاس متنازع خطے میں منعقد کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور ایسے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا‘‘۔ خود بھارت میں بھی اس پر سوالات اُٹھائے گئے بھارتی صحافیوں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تھا۔ جب سے لے کر آج تک کشمیر ایک جیل کی صورت اختیار کیا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں ہر سات کشمیریوں پر ایک فوجی ہے جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہے، اس کے علاوہ کشمیر کے ہندوئوں کو بھی اسلحے سے لیس کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ یوں تو کشمیر میں بھارتی حکومت ہمیشہ ہی میڈیا کو آزادانہ آنے کی اجازت نہیں دیتی، یہاں تک کے اپنے میڈیا کو بھی اجازت نہیں۔ اس وقت مزید بدحواسی میں مودی حکومت نے میڈیا کو بلیک آئوٹ کردیا، وادی کو مکمل طور پر شٹر ڈائون کردیا ہے۔ جی 20 کے اجلاس میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی ہے، اہم ممالک نے شرکت نہیں کی باقی ممالک اراکین نے بھی سفارت خانے کے نچلے سطح کے اسٹاف کو بھیج کر ایک طرح سے بھارت کو شرمندہ ہی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک رپورٹر نے اس پر کہا ہے کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کا اجلاس منعقد کرنا حقائق سے چشم پوشی کی کوشش ہے۔ جہاں بھارت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ بھارت کے کشمیر میں جی 20 کے اجلاس کے فیصلے سے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے مزید واضح ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنمائوں نے شٹر ڈائون ہڑتال کی کال دی ہے۔ دنیا بھر میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ جی 20 اجلاس سے قبل مودی سرکار نے کشمیر کو گوانتا ناموبے بنا دیا ہے۔ آج آپ کشمیر میں نکل کر دیکھیں تو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے کشمیر ایک اوپن جیل محسوس ہوگا، انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو لگتا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تمام مسائل حل ہوجائیں گے لیکن اب چین بھی مسئلہ کشمیر میں داخل ہوگیا ہے۔ پہلے صرف پاکستان مقبوضہ کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتا تھا اب چین بھی اسے متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 2019ء میں بھارت نے قانونی معاہدوں کو توڑ کر سمجھا کہ اب وہ کشمیر پر قبضہ کرلے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کشمیر ایک مسلح کیمپ میں بدل چکا ہے جو دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے۔ معروف فلسفی اور تجزیہ نگار نوم چومسکی نے کشمیر میں جی 20 اجلاس کا انعقاد کو بے ضمیری کا مظہر قرار دیا ہے۔ ان کے بقول کشمیر قید، تشدد، لاپتا افراد اور بنیادی حقوق سے محروم لوگوں کا علاقہ ہے۔ تقسیم کے بعد پیدا ہونے والا مسئلہ کشمیر برسوں بعد اور بھی سنگین ہوگیا ہے، یہ سب کچھ کشمیریوں کے دلوں میں نفرت کے علاوہ اور کسی چیز کا اضافہ نہیں کرسکتا، نہ ہی بھارت اس طرح کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس اقدام سے بھارت کا بے ضمیر چہرہ دنیا کے سامنے مزید واضح ہوا ہے۔