ایٹمی قوت کے 25 برس

709

پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 25 برس بیت گئے۔ قوم نے ایک روایتی سا یوم تکبیر منایا۔ کسی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قبر پر فاتحہ بھی پڑھ لی، کچھ لوگوں نے اس حوالے سے تقاریب کا بھی اہتمام کرلیا۔ لیکن ربع صدی گزرنے کے بعد یہ سوال اپنی جگہ منہ کھولے کھڑا ہے کہ ملک کو ایٹمی قوت کیوں بنایا گیا تھا۔ دو سو کے لگ بھگ ممالک کی اس دنیا میں پاکستان ساتواں ایٹمی ملک ہے۔ عام طور پر جمہوری اقدار، انسانی حقوق، فی کس آمدنی اور دیگر حوالوں سے پاکستان کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو 150 سے 170 کے درمیان ملتی ہے۔ لیکن ایٹمی قوت ہونے کے ناتے پاکستان کی ساتویں اپوزیشن ملی ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس قوت کو کمزوری میں بدل کر رکھ دیا۔ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستان کو بھارت دھمکاتا رہا اور اب اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ امریکا ڈومور کے مطالبے دہراتا رہتا ہے۔ یورپی یونین، انسانی حقوق کے ادارے پاکستان کے خلاف رپورٹیں جاری کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے سوا سال کا عرصہ سر توڑ کوشش کرلی کہ کس طرح آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ دے دے لیکن وہ بھی نہیں ملا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ایٹمی قوت کو ہم نے مسلم لیگ (ن) کا پروجیکٹ بنادیا۔ یوم تکبیر بھی مسلم لیگ (ن) کا بن کر رہ گیا ہے اور اسے قومی تفاخر کی علامت نہیں بنایا جاسکا۔ اس سال بھی یوم تکبیر منایا گیا۔ اتفاق سے صدر پی ٹی آئی کے اور وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کے ہیں۔ دونوں نے قوم کو جس درجہ تقسیم کر رکھا ہے اور ان کے ساتھ دونوں طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے عناصر ہیں ان سب نے مل کر ملک کے اتحاد کو انتشار میں تبدیل کردیا ہے۔ اس ملک میں قومی اتحاد و اتفاق کی علامتوں کو بھی ان قوتوں نے انتشار کا عنوان بنادیا ہے۔ 14 اگست خوشی کی علامت ہے لیکن اس روز حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں چلانے کا آغاز ہوتا ہے۔ 16 دسمبر کو قوم متفقہ طور پر سقوط ڈھاکا کو یاد کرکے آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کا عزم کرتی تھی اور 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا تھا، لیکن اب 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو یاد کیا جاتا ہے۔ ملک دولخت ہونے کا سانحہ اسکول کے مقابلے میں چھوٹا ہوگیا۔ اب 9 اور 10 مئی نے یوم تکبیر کے عزم کو گہنا دیا ہے۔ صدر اور وزیراعظم نے ایٹمی قوت بننے کی مبارکباد دی ہے لیکن اس ملک کو ناقابل تسخیر بنانے والا کوئی کام نہیں کیا گیا۔