دعویٰ اور ثبوت

651

امتحانات کا زمانہ ہے ہر جگہ یہی شور ہے ایسے میں جامعہ کراچی بھی تیار ہے پچھلے جمعہ کو شعبہ فارمیسی میں پریکٹیکل تھا بڑی بیٹی اس کی تیاری میں مصروف چھوٹے بہن بھائی حسب ِ معمول اُسے زچ کیے دے رہے تھے۔
’’ہائے آپی! ہمیں تو بتاتی ہیں کہ فلاں دوائی کھانی بند کر دو اس کے سائیڈ ایفیکٹ اچھے نہیں یہ نہ لو، وہ نہ اب پریکٹیکل میں کیسے ثابت کریں گی؟‘‘۔
دوسری جانب سے آواز آئی: ’’اب مزہ آیا ناں بچو… کہنا آسان ہوتا ہے ثابت کرنا مشکل‘‘۔
’’ہاں تو سائنس تھیوری بھی دیتی ہے کرلوں گی ان شاء اللہ‘‘۔
اس نے ترنت جواب دیا۔ ’’مگر بچو اس تھیوری کو ثابت تو پریکٹیکل کرتا ہے ناں ورنہ تھیوریز تو ڈھیر…‘‘
ان کی نوک جھونک اتنی طویل چلی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے ذہن میں چپک کر رہ گئی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کے قافلے پر خود کش حملے کی خبر کے بعد کی خبروں نے زیادہ چونکا دیا۔ بدقسمتی سے ہم جس دور کو گزار کر آئے ہیں اور جس دور کو گزار رہے ہیں اس میں خود کش بم دھماکے کی خبر چونکاتی ہے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر اپنے کام دھندوں سے لگ جاتے ہیں مگر اس خبر کے بعد کی خبروں نے نہ صرف چونکنے پر مجبور کر دیا بلکہ قلم کو گواہی دینے پر بھی اکسانا شروع کر دیا۔
آنکھوں کے سامنے وہ مناظر گھوم گئے کہ جب مختلف سیاسی رہنماؤں پر اسی طرح کے حملوں کے دوران گھیرا ڈال کر انہیں محفوظ مقام پر پہنچانے کی جلدی کی جاتی ہے اور وہ بھی ڈرے چھپے سہمے ہوئے گارڈوں اور کارکنوں کی اوٹ میں نیویں نیویں ہوکر گرتے پڑتے چلتے چلے جاتے ہیں اور پیچھے زخمی کارکنان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا فلاحی وسماجی اداروں کی ایمبولینس سروس آکر انہیں اٹھائے، بٹھائے لے جائے یہ ان کا مسئلہ ہے ان کا رہنما اب جاکر چھپ گیا ہے یہ اس کا مسئلہ نہیں وہ اگلی مرتبہ حالات دیکھ کر کال دے گا اب تب رابطہ ہوگا۔ مگر یہ انوکھا ہی رہنما دیکھا اس پر حملہ ہوا وہ نشانے پر ہے کارکن نشانے پر نہیں اسے تو چھپ جانا چاہیے تھا وہاں سے بھاگ جانا چاہیے تھا سیاسی روایات کے مطابق دوسرا دھماکہ بھی کہیں قریب ہی دوبارہ ہو سکتا تھا مگر کیوں نہیں وہ رکا وہ تو زخمیوں کو لے کر اسپتال جا رہا ہے ایک ایک کے سرہانے کھڑا ہو ہو کر تسلیاں دلاسے دے رہا ہے اور تو اور جس جلسے میں جانا تھا اب تو ادھر جانا کینسل کر دینا چاہیے تھا مگر نہیں اس نے کہا ’’خوف بس اللہ کا، ہم جماعت اسلامی والے ہیں، اللہ پر بھروسا کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہی جلسہ گاہ کو روانہ ہو گیا۔
یہ لوگ کیسے ہیں ناں کس کس طرح کے ثبوت دے جاتے ہیں ناں ارے یہ سیاسی میدان ہے میں تو بس دعوں ہی سے کام چلتا ہے وقت پڑے تو یوٹرن لے لیا جاتا ہے سیاست خصوصاً پاکستان کی سیاست میں تو یہ چلن عام ہے مگر یہ ایک سیٹ والی جماعت اسلامی والوں کو کیا پڑی ہے جو اپنے اعمال سے ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں سنا ہے ان کی جماعت کے بانی مولانا مودودی صاحب کے جلسے میں فائرنگ ہو گئی تھی کارکنان نے گزارش کی کہ ’’آپ بیٹھ جائیں‘‘ سید مودودی نے تاریخ ساز جملہ کہا کہ: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون ہوگا؟‘‘۔ آج اسی سید زادے کے تربیت یافتہ سراج الحق نے تاریخ رقم کردی یہ کہہ کر کہ: ’’خوف بس اللہ کا‘‘۔
میری نگاہ میں بہت سے دعوے گھومنے لگے۔
دعویٰ: پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ
ثبوت: ’’اسلامی‘‘ جمہوریہ پاکستان کا 75 سالہ غیر اسلامی دور۔
دعویٰ: آئین پاکستان کی تکمیل مضبوط پاکستان کی تشکیل۔
ثبوت: 56 اور 62 کے ٹوٹے ہوئے آئین۔
دعویٰ: متحد پاکستان۔
ثبوت: اِدھر تم اُدھر ہم۔
دعویٰ: روٹی کپڑا اور مکان۔
ثبوت: زن، زر، زمین کے لیے جھگڑتا ہوا حکمران خاندان۔
دعویٰ: شریعت اسلامیہ کا نفاذ۔
ثبوت: گیارہ سالہ آمرانہ اقتدار۔
دعویٰ: جمہوریت کی بالادستی۔
ثبوت: جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست۔
دعویٰ: قرض اتارو ملک سنوارو۔
ثبوت: حکومتی رسہ کشی میں پستی غریب عوام۔
دعویٰ: کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔
ثبوت: آزادی پسند سکھوں کی لسٹ فراہم کر کے بھارت کو مضبوط بنادیا۔
دعویٰ: اختیارات کی نچلی سطح تک رسائی، آزادی اظہار رائے و ذرائع ابلاغ کی۔
ثبوت: بلدیہ ٹاؤن کے مزدوروں، کورٹ کے وکلا اور لال مسجد کے طلبہ وطالبات کو جلا کر شاندار طاقت کا مظاہرہ۔
دعویٰ: ریاست مدینہ۔
ثبوت: ریاست ’’میڈونا‘‘۔ ( ڈی جے کی تھاپ پر، تالیاں پیٹتی ہوئی)
دعویٰ: عوام کو مہنگائی سے آزاد کرانا ہے۔
ثبوت: موت سستی روٹی مہنگی ہو گئی۔
قیام پاکستان سے آج تک جتنے دعوے سنے یہ ان دعووں کی بازگشت ہے مگر اس کے ساتھ متوازن کچھ اور دعوے بھی تاریخ سے اخذ کیے، سنے اور آج دیکھ بھی لیے ان کی تفصیل بھی حاضر خدمت ہے۔
دعویٰ: ادخلو فی السلم کافہ (داخل ہو جاؤ پورے کے پورے دین میں)۔
ثبوت: ایک ایک فرد کو دین اسلام میں داخل کرنے کے لیے گلی، گلی ادارے ادارے میں قرآنی دروس اور تذکیری محافل کا اہتمام۔
دعویٰ: رضائے الٰہی کا حصول۔
ثبوت: جوانوں نے اپنی زندگیاں اور جوانیاں تج دیں اس نعرہ کے نفاذ کے لیے۔
دعویٰ: خدمت، دیانت اور صداقت کے ساتھ۔
ثبوت: الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے تمام ادارے۔
دعویٰ: انصاف کی فراہمی انصاف کے ساتھ۔
ثبوت: ول فورم کے تحت وکلا برادری کی کاوشیں۔
دعویٰ: مسیحائی دکھی انسانیت کی۔
ثبوت: پیما کے تحت کام کرنے والے ڈاکٹروں کا اخلاص۔
دعویٰ: قلم کی حرمت کی پاسداری۔
ثبوت: حریم ِ ادب پاکستان کے تحت مصنفین کی کاوشیں۔
کس کس دعوے کی بات کریں کتنے ثبوت فراہم کیے جائیں۔ کچھ دعوے تو ایسے ہیں کہ جماعتی خود نہیں کرتے بلکہ لوگ انہیں ایسا کہتے ہیں اور لوگوں کی امیدوں اور تمناؤں پر اترنے کے لیے وہ جب میدان عمل میں اترتے ہیں تو ربّ العالمین سے پورے تیقن اور توکل کے ساتھ رہنمائی مانگ کر نکلتے ہیں اور وہ ربّ العالمین ان کی عزت رکھ لیتا ہے ہمیشہ ہی رکھ لیتا ہے اور کچھ اس طرح رکھتا ہے کہ ٹیڑھی ٹوپی اور ایک سیٹ کے طعنے دینے والے بھی گنگ رہ جاتے ہیں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پھانسی کی سزا پانے والے مودودی کو تختہ دار پر بھی توکل علی اللہ کے باعث اطمینان کی نیند آ جاتی ہے، میاں طفیل کی ساری طرحداری، نظریات کے نفاذ میں ہی کہیں قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے،
قاضی حسین احمد کی باریش بزرگی بھی کارکنان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ظلم وجبر کے سامنے ڈٹ جاتی ہے، روشن نام والے سید منور کی آہنی شخصیت کے سامنے وقت کے فرعون بھی گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور وزیر خزانہ ہو کر عوامی آٹو رکشہ میں بیٹھ کر اسمبلی جانے والا مرد مومن مرد حق سراج الحق جس پر حملہ ہوا تو بھی اس کے نہ قدم ڈگمگائے نہ ارادے کمزور ہوئے۔ جو ترانے سن سن کر یہ لوگ اپنے جذبات کو مہمیز دیتے ہیں ان کے اشعار تو سنیں۔
چلتی بندوق کے ہم دہانے پہ ہیں ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں۔
جنہیں اپنے جرم حق کی پاداش میں سزاؤں کا علم ہے انہیں کیا تیر و تلوار، گولی و بارود سے ڈرانا، وتعز من تشاء و تذل من تشاء کے مصداق انہیں معلوم ہے کہ موت اور عزت ہر شے کا وقت مقرر ہے وہ کسی گولی اور گالی سے نہ ملتی ہے نہ مٹتی ہے سو ان سے ڈر کیسا؟
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں