کے الیکٹرک اور نیپرا کا گٹھ جوڑ

1035

اہل کراچی کی مظلومیت اگر کسی کو دیکھنا ہو تو وہ کچھ دن کراچی کی کسی بستی میں رہ کر دیکھ لے، ہم شہر کے پوش علاقوں کی بات نہیں کررہے بلکہ کسی متوسط یا غریبوں کی بستی میں رہیں جہاں نلوں میں پانی نہیں آتا لیکن پانی کے بل بڑی پابندی کے ساتھ آتے ہیں جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ روز بروز بڑھتی جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر ماہ بجلی کے بل کی رقم بڑھتی جارہی ہے جہاں اب گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جہاں امن وا مان کی صورتحال یہ ہے کہ گھر سے نکلتے وقت یہ خوف ہر وقت دل میں رہتا ہے کہ میں کہیں لوٹ نہ لیا جائوں، موبائل چھیننے والے ڈاکو ذرا سی مزاحمت پر جان سے مار دیتے ہیں۔ جہاں آپ کو تھوڑی دور بھی جانا ہو تو بس والے 50روپے اور رکشہ والے 100روپے مانگتے ہیں جہاں مہنگائی (ویسے تو یہ پورے ملک میں ہے) رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اہل کراچی کے دکھ کو اگر سمجھنا ہے تو صرف کے الیکٹرک کا کراچی والوں کے ساتھ رویہ دیکھ لیں یہ ظلم کی ایک طویل داستان ہے جتنا آپ کو سنائیں گے وہ کم ہی ہوگا۔
بعض اوقات تو ہم سوچتے ہیں کہ وہ دن کتنے اچھے تھے جب ہمارے یہاں بجلی نہیں تھی اپنے ان رشتہ داروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے جن کے یہاں بجلی کے کنکشن ہوتے اور اس سے جڑی ہوئی الیکٹرونک چیزوں کو آنکھیں پھاڑ پھار کر دیکھتے تھے جیسے استری، فریج اور ائر کنڈیشنر وغیرہ لیکن اس کے باوجود ہم اس لالٹین والی زندگی سے بہت خوش تھے جس میں رات، رات ہوتی تھی اور دن، دن ہوتا تھا، مغرب کا وقت قریب آیا امی نے چھوٹی بہن کو آواز دی کہ لالٹین کی چمنی صاف کرکے اس میں مٹی کا تیل چیک کرلو کم ہو تو بھائی جان سے منگوالو، اور ہاں دیکھو کمرے میں چراغ جلادو۔ اس زمانے میں عام طور پر گھروں میں تین حصے ہوتے تھے ایک کمرہ دوسرا آنگن اور تیسرا کھلا دالان۔ کمرے کے ایک کونے میں چراغ جلادیا جاتا جس کی روشنی تو کم ہوتی لیکن کمرہ پھر بھی اتنا روشن رہتا تھا کمرے میں رکھی ہوئی چیزیں دور سے نظر آجاتیں پھر چونکہ کمرے میں ہوا کا گزر کم ہوتا اس لیے چراغ عموماً جلتا ہی رہتا، اس زمانے میں زمین آسمان ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ رہتے تھے اب ہم نے اپنے گھروں سے زمین و آسمان دونوں کو نکال دیا ہے اب آسمان دیکھنے کے لیے گیلری میں آنا پڑتا ہے اور زمین سے ملنے کے لیے سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں۔ لالٹین کمرے اور چھپر والے دالان کے درمیان ٹانگ دی جاتی جس سے پورا گھر روشن رہتا۔ گھروں میں کوئی تقریب ہو تو گیس بتی جلائی جاتی جو کرائے پر مل جاتی تھی رات کے وقت جنازہ قبرستان میں لے جاتے وقت چار پانچ گیس بتی کا انتظام ہوتا کہ اگر ایک یا دو راستے خراب ہوجائے یا بجھ جائے بقیہ سے کام چل جائے گا۔
ہمیں یاد ہے کہ میٹرک تک ہم نے لالٹین کی روشنی میں پڑھا ہے کبھی دوستوں کے ساتھ کسی چورنگی یا پارک میں جاکر پول کے نیچے بیٹھ کر بلدیہ کے لگائے ہوئے بلب کی چمکیلی روشنی میں مطالعہ کیا کرتے اور گرمی کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا مزہ بھی لیتے۔ ایک رات ہمارے ایک دوست ہم سے ملنے آئے باہر گیا تو سلام دعا کے بعد کہا کہ آج آپ گھر کچھ زیادہ چمک رہا ہے میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پڑوس میں بجلی کا کنکشن لگا ہے ان سے ہم نے پانچ روپے ماہانہ پر ایک بلب اور ایک پنکھے کا کنکشن لیا ہے یہ تھا قصہ ہمارے یہاں بجلی کے آنے کا اور ماہانہ بل کا جو پانچ روپے تھا۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مکانیت کے اندر بھی تبدیلی آنا شروع ہوگئی افراد خانہ بڑھتے گئے تو گھر کے کھلے ہوئے حصوں میں مزید کمرے بنتے گئے پھر ایک وقت آیا کہ ہمیں بھی اپنا بجلی کا کنکشن لینا پڑا پہلے رات میں بلب جلتے اور صبح ہوتے ہی بجھا دیے جاتے پنکھوں کا استعمال بھی ضرورت کے مطابق ہوتا ایک عمومی رجحان کفایت سے بجلی کے استعمال کا تھا جب گھر میں کھلے آنگن ختم ہوگئے منزلوں پر منزلیں بننے لگیں پہلے اگر کچھ دیر کے لیے بجلی چلی جاتی تو گھر کے کھلے حصوں میں وقت گزاری ہوجاتی لیکن چاروں طرف فلیٹس اور بلڈنگیں بن جانے کی وجہ سے قدرتی ہوا آنا بند ہو گئی ہے اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو اگر کوئی متبادل سسٹم نہ ہوتو بہت پریشانی ہوجاتی ہے بچے بلبلا کر رہ جاتے ہیں۔
کراچی میں کے ای ایس سی یعنی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن تھی جو کراچی کے شہریوں کو بجلی فراہم کرتی تھی پھر بڑی تیز رفتاری سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا یہ فطری سے زیادہ غیر فطری تھا۔ پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آنا شروع ہو گئے بڑی تعداد میں کچی بستیاں وجود میں آئیں، کے ای ایس سی بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بجلی کی چوری کیسے کی جاتی ہے یہ عام پبلک نہیں جانتی تھی یہ کے ای ایس سی کے ملازمین ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو میٹر میں تار لگانا سکھایا، کنڈا سسٹم کی لعنت وجود میں آئی جب کے ای ایس سی بجلی کی طلب پوری کرنے میں ناکام ہو گئی تو اسے حکومت پاکستان نے ابراج گروپ کے ہاتھوں بیچ دیا یہ ابراج گروپ کیا ہے کہاں ہوتا ہے اس کی تفصیل بتانا غیر ضروری ہے البتہ اس گروپ نے کراچی کے شہریوں پر جو ظلم کیے ہیں اس کا ذکر کرنا ضروری ہے اس کے مالک لندن کی جیل میں ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کی پاکستان کے تمام سیاست دانوں سے ان کی دوستی ہے یہ ان کے انتخابی اخراجات پورے کرتے ہیں کئی سال پہلے کی بات ہے بجلی کے مسئلے پر جماعت اسلامی نے کوئی احتجاج کی کال دی اور اس میں کوشش کی کہ پی ٹی آئی کو بھی ملالیا جائے اس پارٹی کے رہنمائوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ ہمیں فنڈنگ کرتے ہیں اس لیے ہم ان کے خلاف مظاہرے میں شریک نہیں ہوسکتے۔
کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں پر جو ظلم روا رکھا ہوا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی کہ اسلام آباد کے ایک شہری کو 102یونٹ کا بل 1500 کی رقم کا ملا اور کراچی کے ایک شہری کو 102یونٹ کا جو بل ملا وہ ساڑھے چار ہزار کا تھا۔ حکومت پاکستان کا ادارہ نیپرا کے الیکٹرک کی سرپرستی کرتا ہے اس طرح کہ اگر پانچ روپے فی یونٹ بڑھانا ہے تو نیپرا والے کے الیکٹرک سے کہیں گے کہ آپ ہمیں 8روپے بڑھانے کی درخواست کریں تو ہم اسے پانچ روپے کردیں گے عوام بھی خوش ہوجائیں گے۔ کراچی کے عوام کا خون نچوڑنے کے لیے کے الیکٹرک اور نیپرا نے آپس میں گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ حافظ نعیم الرحمن جب کراچی کے میئر بنیں گے تو وہ پہلی فرصت میں کے الیکٹرک کے مسئلے کو دیکھیں گے ان کے اصل معاہدے کی کاپی نکلوائیں گے، انہوں نے اب تک کتنی بجلی پروڈیوس کی ہے اور انہوں نے کیا کیا وعدہ خلافیاں کی ہیں اور اب وہ بیس سال کی ایکسٹینشن کیوں مانگ رہے ہیں اس لیے کہ ان کے منہ کو کراچی کے شہریوں کا خون لگ گیا ہے ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کے وفاقی حکومت کے الیکٹرک کے سامنے بھیگی بلی کیوں بنی رہتی ہے کے الیکٹرک کی کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم کی داستان بڑی طویل اور بہت دل خراش ہے، آج 25مئی کے اخبارات میں ہے کہ کے الیکٹرک نے نیپرا سے ایک روپے 90پیسے بڑھانے کی درخواست کی ہے، جو منظور کرلی گئی، ہر دو دن بعد ایسی ہی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔