فوجی عدالتوں کا قیام، بدقسمتی

848

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے نہیں بلکہ آئین اور قانون پر عمل کرنے سے ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ عدالت عظمیٰ نے شیخ لیاقت حسین کیس میں فوجی عدالتوں کے قانون کو کالعدم قرار دیا تھا اور اب اگر کوئی بھی درخواست لیکر آجائے تو یہ فیصلہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف کے فوجی عدالتوں کے قیام سے قبل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ فوجی عدالتیں قائم ہوں گی۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہے اس کے باوجود بھی فوجی عدالت بنائی جارہی ہے شاید آج ہمیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات اور فوجی عدالتوں کے قیام جیسے فیصلے نہ کرنا پڑ رہے ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ملزم کا بااثر اور مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا موجودہ حالات میں آرمی ایکٹ کے نفاذ کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ یاد رہے کہ فوجی عدالت نے ایک اور شہری محرم علی کو موت کی سزا سْنائی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتیں سویلین کا ٹرائل نہیں کرسکتیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں 1998ء میں ایک آرڈیننس کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جسے عدالت عظمیٰ نے 17فروری 1999ء کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمات چلانا غیر آئینی ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں 1998ء میں ایک آرڈیننس کے تحت فوجی عدالتیں قائم بھی کی گئی تھیںاور اس میں چلنے والے مقدمات پر کراچی میں چند افراد کو سزائیں بھی ہوئیں تھیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بلاشبہ ایک مقبول سیاسی راہنما بن چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے اور ان کی پارٹی کی بقیہ قیادت نے اپنے کارکنان کی کیسی تربیت کی ہے کہ صرف ایک معمولی سے کیس میں گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے تمیز تہذیب، نظم، ضبط اور قانون کی تمام حدیں ہی پھلانگ ڈالیں۔ احتجاج کے نام پر ہلڑ بازی اور بلوہ کرنے والے ان لوگوں نے نہ تو اداروں کے تقدس کا خیال رکھا، نہ چادر اور چار دیواری کی کسی حد کو مانا، نہ قومی شہدا کی یادگاروں کی حرمت کا خیال کیا اور نہ ہی ملک کے قانون کو خاطر میں لائے۔ سیاسی کارکنوں کے روپ میں ان دہشت گردوں نے نہ صرف فوج اور پولیس کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ عام شہری بھی ان فسادیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ جب یہ طوفان بدتمیزی اپنے عروج پر تھا تو میں ٹیلی ویژن پر صورتحال دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کرنے والے یقینا نہ تو کوئی سیاسی کارکن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اس قسم کے اقدامات کا فیصلہ اچانک ہوتا ہے۔ اس سب کے پیچھے ایک پوری منصوبہ بندی کارفرما رہی ہو گی۔ لیکن اس بات میں بہت وزن ہے کہ ’چور کو نہ پکڑیں بلکہ چور کی ماں کو پکڑیں‘، یعنی ان بلوائیوں میں یقینی طور پر تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ کچھ جذباتی قسم کے سیاسی کارکن بھی شامل ہوں گے۔ اگر اس فساد کی جڑ تک پہنچنا ہے تو بس ان لوگوں کو پکڑیں جنہوں نے حساس مقامات کی جانب جانے اور وہاں پر ہلڑبازی کرنے کی کال دی۔ اگر کامیابی کے ساتھ ایسا ہو گیا تو مجھے یقین ہے کہ تمام کہانی الف سے لے کر یے تک بالکل واضح ہو جائے گی اور اتنی بڑی قانون شکنی کی منصوبہ بندی کرنے والے اور پھر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے والے تمام چہرے بے نقاب ہو جائیں گے۔
سوال یہ سامنے رکھا جارہا ہے کہ کیا فوجی عدالتیں عام شہریوں کو سزا دے پائیں گی؟ عام فہم الفاظ میں فوجی عدالتیں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قائم کی جاتی ہیں اور فوج کے حاضر سروس افسران ہی ان عدالتوں میں بطور جج بیٹھتے ہیں۔ لاہور میں واقع جناح ہاؤس جہاں کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ تھی اور جسے 9 مئی 2023 کو مشتعل ہجوم نے نذر آتش کر دیا تھا۔ پاکستان میں فوجی عدالتوں میں عام افراد کے مقدمات سنے جانے کا آغاز لاہور میں 1953 میں فسادات کے بعد لگائے جانے والے مارشل لا سے ہوا جس کے بعد خصوصی فوجی عدالتیں لگا کر سزائیں سنائی گئیں۔ بعد میں فیڈرل کورٹ نے ’محمد عمر بنام تاج برطانیہ‘ نامی کیس کے ذریعے توثیق بھی کر دی۔
یکم جنوری 2015 کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار دستوری بندوبست کرتے ہوئے دو سال کے لیے 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مذہبی اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف درج مقدمات کو فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا گیا۔ 2017 میں دوسری بار 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو مزید دو برس کے لیے یہ اختیار دے دیا گیا۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق ان چار برسوں میں کل 641 افراد کو فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائیں سنائی گئیں جن میں 345 افراد کو سزائے موت ہوئی۔ ان میں سے اب تک 56 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ اس عرصے میں صرف پانچ افراد ان عدالتوں سے بری ہوئے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، قومی سلامتی کمیٹی اور حکومت پنجاب کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے میں آرمی ایکٹ کے ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔ اس سے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں آرمی ایکٹ کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتوں میں یہ مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس وقت نافذ العمل آرمی ایکٹ کی دفعہ دو کی ذیلی شق ڈی کی دفعات ایک اور دو کے تحت فوج سے تعلق نہ رکھنے والے افراد یعنی ملک کے عام شہری اگر فوج سے تعلق رکھنے والے ملازمین یعنی فوجیوں کو حکومت وقت کے خلاف نافرمانی کی ترغیب دیں یا پھر وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیبات اور دفاعی مقامات وغیرہ کی بابت درج کسی جرم کے مرتکب ہوں تو شہریوں کے مقدمات بھی آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں۔ ہماری عدلیہ میں اگر تیز رفتاری سے مقدمات کو نمٹانے، فیصلوں پر عملدآمد اور نفاذ کا طریقہ کار مستحکم نہ ہونے وجہ سے بھی فوجی عدالت کے قیام کی وجہ بنتی رہی ہے۔ لیکن عدلیہ کی سبک رفتاری اب بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں بار بار فوجی عدالتوں کا قیام حالات کی مجبوری اور نظریہ ضرورت کی ضروری سمجھا جاتا ہے۔