خواتین کا مقام اور اہمیت

679

عورت خواہ ماں ہو یا بہن، بیوی ہو یا بیٹی، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ عورت کے معاشرتی مقام اور اس کے کردارکی اہمیت کا اندازہ جہاں قرآن پاک کے واضح احکامات سے ہوتا ہے وہاں نبی کریمؐ نے عورت کے مختلف کرداروں کی جو اہمیت بیان فرمائی ہے وہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام خواتین کو اس کی مختلف حیثیتوں میں کتنی اہمیت دیتا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بالخصوص اور دیگر معاشروں میں بالعموم خواتین کا بے پناہ استحصال ہوتا تھا حتیٰ کہ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ بچیوں کو زندہ گاڑنا اور خواتین کو زندہ رہنے کے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا البتہ جب عرب کے ریگزاروں میں اسلام کا ظہور ہوا تو ان کی معاشرت کے بہت سے دیگر پہلوئوں کے ساتھ ساتھ خواتین سے متعلق احکام الٰہی کے نزول کی روشنی میں خواتین کی زندگی بھی یکسر بدل گئی اور کل تک جن خواتین کو راندہ درگاہ سمجھا جاتا تھا اب وہ عزت وتکریم کی نشانی بن گئیں۔
اسی طرح جب ہم کبھی پختون معاشرے کے تاریک پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں عرب دور جاہلیت کی طرح عمومی طور پر خواتین ظلم وزیادتی اور سماجی عدم مساوات کی شکار نظر آتی ہیں۔ خواتین کے حقوق اور مسائل کے حوالے سے ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ سماجی طور پر رو ارکھے جانے والے امتیازی سلوک کو نا سمجھی یا پھر غلط فہمی یا پھر شاید دانستگی کی بنیاد پر بلا سوچے سمجھے اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اس ضمن میں مغربی معاشرے کی اپرووچ اور پروپیگنڈا تو قابل فہم ہے لیکن بدقسمتی سے بسا اوقات مسلمان معاشروں سے بھی اس طرح کی آوازیں اٹھتی نظر آتی ہیں جو یقینا ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ اس پروپیگنڈے کی تازہ مثال افغان طالبان کی جانب سے انتظامی بنیادوں پر بچیوں کی تعلیم پر کچھ عارضی پابندیاں اور خواتین کے روزگار کے حوالے سے کیے جانے والے کچھ فیصلے ہیں حالانکہ طالبان اس حوالے سے بارہا یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ وہ ایک عبوری انقلابی دور سے گزر رہے ہیں اور حالات جیسے ہی سازگار ہوں گے ان کے لیے بچیوں کے لیے مخصوص تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم پر نہ تو کوئی اعتراض ہوگا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی۔
جہاں تک اسلام میں خواتین اور ان کے حصول تعلیم کی اہمیت کا تعلق ہے تو اس سے نہ تو انکار کی گنجائش ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات سے ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے جس میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کا کوئی معمولی سا شائبہ تک پایا جاتا ہو۔ اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اسلام نے ویسے تو علم کو مرد وعورت دونوں کے لیے فرض قرار دیا ہے البتہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ خواتین کا بچوں کی تعلیم وپرورش میں کلیدی کردار ہے۔ خواتین پر چونکہ نسل انسانی کی بقاء کا دارو مدار ہے اور سماجی ترقی میں ان کا ایک واضح اور مسلمہ مقام ہے اس لیے اسلامی تعلیمات میں ہمیں جابجا خواتین کی اہمیت اور ان کے مقام ومرتبے کے حوالے سے مثالیں ملتی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، انہیں تعلیم وتربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن ِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ دنیا کے بیش تر معاشروں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔
مغربی تہذیب نے عورت کی اس مظلومیت کا مداوا اسے معاش کی تلاش میں گھر سے نکال کر انہیں فیکٹریوں، بازاروںاور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ ان حالات میں اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلامی احکامات کے تحت عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر عورت بیٹی ہے تو اس کا نان نفقہ باپ کے ذمے ہے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان و نفقہ واجب کردیا گیا ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمے ہیں۔ اسی طرح عورت کا حق ِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ: عورتوں کو ان کا حق ِ مہر خوشی سے ادا کرو، اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے خوشی سے کھائو۔ بعض معاشروں میں وراثت میں عورت کا کوئی حق تصور نہیں کیا جاتا لیکن اس کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ مقررکر رکھا ہے۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے جو عزت و عظمت اور بلند مقام عطا فرمایا ہے اس کی مثال دنیا کاکوئی دوسرا معاشرہ پیش نہیں کرسکتا ہے۔